گلشنپارک میں خودکش حملے میں 72افراد ہلاک اور 340 زخمی ہوئے اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت بچوں اور
خواتین کی تھی ،جس میں ایسٹرپر مسیحیبڑی تعداد میں موجود تھے جو فرصت کے لمحے بچوں کے ساتھ گزارنے پارک میں آئے تھے۔ خودکش دھماکے نے انلوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ کردیا جو خوش ہونا چاہتے تھے۔گلشن اقبال
پارک لوئیر مڈل کلاس علاقے میں ہے جہاں لوئیر مڈل کلاس ،محنت کش اور غریب لوگ اپنے بچوں کے ساتھ آتے تھے ۔اس خودکش حملے کی ذمہ داری طالبان سے علیحدہ ہونے والے گروپ نے قبول کی ،یہ دھماکہ ان کے رجعتی
کردار کو ظاہر کرتا ہے۔
حکمران طبقہ کی طرف سے گہرے دکھ اورمذمتوں کا اظہار سلسلہ جاری ہے۔اس کے ساتھ ایک بار پھر آپریشن کے مطالبات میں
شدت آگئی ہے،پچھلے پندرہ سال کا تجربہ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ آپریشن مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے اور ان کے نتیجے میں امن کی بجائے تباہی اور بربادی میں اضافہ ہوا ہے اور اس تباہی کے ذریعے ریاست اپنی
رٹ کو بحال کروانا چاہتی ہے،لیکن ان اقدامات سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں،ہزاروں قید میں ہیں جبکہ بے گھر ہونے والوں کو شدیدنسل پرستی کا بھی سامناہے۔
دہشت مخالف جنگ ان خیبر پختون خواہ سے بڑھکر سندھ،بلوچستان اور کراچی میں پہنچ گئی ہے اور یوں دہشت گردی تو ختم
نہیں ہوئی لیکن اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے آپریشن پھیل گیا ہے اور یہ آپریشن پنجاب میں بھی شروع ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں حکمران طبقہ میں تضادات عروج پر ہیں اور بہت سارے تجزیہ نگاروں کے مطابق نواز
شریف حکومت کے خلاف دائرہ تنگ ہوگیا ہے۔موجود حکومت نے پچھلے چند سالوں میں ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں،،جو شہری آزادیوں پر بڑا حملہ ہے،جیسے ملٹری کورٹس کا قیام،میڈیا اور شہریوں پر اظہار رائے کی
پابندیاں،سکیورٹی اداروں کو ورنٹ کے بغیر گرفتاری کا اختیار،فون ،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاکی نگرانی کے ذریعے عام لوگوں کے خیالات پر کنٹرول ،لیکن اس سب کے باوجود دہشت گردی میں خاتمہ کی بجائے مزید اضافہ
ہوا ہے اور یہ قوانین محنت کشوں اور مظلوموں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔
سامراجی جنگ اور اس کے آپریشن رجعت اور بربریت کی قوتوں کو ہی مضبوط کرتے ہیں۔یہ سب پچھلے پندرہ سال میں واضح ہے
اور اس کا سب سے اہم اظہار مشرق وسطی میں داعش کی صورت میں سامنے ایا ہے۔یہ صورتحال واضح کررہی ہے کہ حکمران طبقہ کے تمام آپشن ناکام ہورہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود لیفٹ میں سامراج اور ریاست سے یہ امید
ہے کہ یہ طالبان کا خاتمہ کرکے لبرل اور سیکولر ریاست قائم کرسکتی ہے۔یہ حقیقت کی غلط تصویر کشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اصل میں ایک جنگ مخالف عوامی تحریک کے ذریعے ہی اسلامسٹوں اور سامراج کی جنگ کو شکست
دی جاسکتی ہے اور واضح طور پر اس تحریک کو سامراج کے خلاف ہونا ہوگا یوں ہی یہ ایک متبادل بن سکتی ہے۔ جو محنت کش طبقہ کی قیادت میں سامراج مخالف جنگ کو سوشلسٹ انقلاب میں بدل دے۔