محنت کش خواتین کی جدوجہد


پاکستان کی موجود صورتحال میں محنت کش طبقہ کی تحریک پر شدید دباؤ موجود ہ ہے اور ان حالات میں محنت کشوں کو منظم کرنا کافی مشکل ہے اور یونین سازی پر نجی شعبہ میں عملاََ پابندی ہے اگر محنت کش اس حوالے سے کوشش کریں تو ان کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور اگر وہ کسی طرح یونین بنانے میں کامیاب ہوجائیں تو دوتین یونینز قائم کرکے ان کے لیے کام کو مشکل بنا دیا جاتا ہے۔نجی شعبہ میں ٹھیکداری نظام رائج ہے جس کی وجہ سے عام طور محنت کش عام طور پر محنت کش متعلقہ فیکٹری کے میں رجسٹرڈ نہیں ہوتے ہیں۔اس لیے ان کو حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جو کچھ ان کو قانونی طور پر میسر ہیں۔سرگودھا روڈ پر کپڑوں کی فیکٹری میں محنت کش خواتین 10سے 12گھنٹے نہایت کم اجرات پر کام کرتی تھیں اور انہیں تنخواہ کے طور پر 5سے 6ہزار ملتا تھا۔فیکٹری شہر سے باہر تھی اس لیے یہ خواتین فیکٹری کی بس پرصبح سویرے فیکٹری آتی تھیں،فیکٹری میں کام کی جگہ نہایت ہی بری ہے اور صرف ایک واش روم ہے جس کو فیکٹری کی انتظامیہ بھی استعمال کرتی ہے جب خواتین نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو ان کو نوکری سے نکالنے سے دھمکی پر حالات سے سمجھوتے پر مجبور کیا گیا ۔ان کو کوئی چھٹی نہیں دی جاتی،اگر وہ کسی دن چھٹی کر لی جاتی تو ان کی ڈیڑھ دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی اور ان کو کوئی سوشل سیکورٹی اور علاج کی سہولیات حاصل نہیں تھی۔اگر کام کے دوران کوئی حادثہ ہوجائے تو ان کو سرکاری اہسپتال میں بھیج دیا جاتا ہے اور کوئی مدد نہیں کی جاتی یا تھوڑی سی امداد دے کر گھر بھیج دیا جاتا اور ان نوکری ختم ہوجاتی اور وہ معذوری کے عالم میں نہایت برے حالات میں زندگی گزارتیں۔چند ہفتے پہلے خواتین کے فیکٹری دیر سے پہنچنے پر ان کی دن کی تنخواہ کاٹ لی گی اس پر چند خواتین نے جب انتظامیہ سے احتجاج کیا کہ دیر سے پہنچنے کی وجہ وہ نہیں ہیں بلکہ بس میں خرابی کی وجہ سے ایسے ہوا ہے جب منیجر اور انتظامیہ نے ان کی بے عزتی کی اور چند خواتین کو فیکٹری سے باہر نکال دیا تو دیگر خواتین نے احتجاجاََ کا م بند کردیا اور انہوں نے فیکٹری کے دروازے پر دھرنا دیا شام میںیہ خواتین گھر چلی گئیں اگلے دن انہوں نے پھر احتجاجاََ کام نہیں کیا۔اس صورتحال میں اس ہی فیکٹری کے دیگر یونٹس کی خواتین نے بھی دھرنے سے اظہار یکجتی میں کام بند کردیا ۔جس کے بعد فیکٹری انتظامیہ نے مجبوراَ خواتین کو نوکری پر بحال کردیا اور ان کی تنخوہوں میں اضافہ اور دیگر مطالبات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔یہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس کو مستقل کرنے کے لیے محنت کش خواتین کو فیکٹری کمیٹی تشکیل دینی ہوگئی اور ٹریڈ یونین کی رجسٹرریشن اور علاقے میں محنت کشوں کی دیگر تنظیموں سے تعلقات بنانے چاہیں۔تاکہ علاقے میں ایک مضبوط تحریک کو تعمیر کیا جاسکے۔