23سالہ ترقی پسند عبدالولی خان یونیورسٹی طالب علم مشال کی پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں وحشیانہ قتل بڑھتے ہوئے سماجی بحران کا اظہار ہے یہاں عدم برداشت کارویہ اپنی انتہائی سطح
پر پہنچ چکا ہے ۔یہ ایک بدترین بربریت اور وحشت تھی جس میں ایک نوجوان کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ سوال اُٹھتا،یونیورسٹی میں پابندیوں ،فیسوں میں اضافہ اور کرپشن کے تحریک منظم کررہا تھا۔یہ ثابت
ہوچکا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کے خلاف بے بنیاد پرپیگنڈاکیا اور اُسے اسے جرم کی سزا دی گئی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔مشال خان کو ہاسٹل کے کمرے سے نکال کر ڈانڈوں اور اینٹوں سے خوفناک طریقہ سے
مار دیا گیا اور بعدازں اسے گولی مار دی گئی،لیکن معاملہ یہاں پرختم نہیں ہوا بلکہ اس کی نعش کی شدید بے حرمتی کی گئی اور اس پر اینٹوں اورلکڑی کے وار کئے جاتے رہے اور پھر اس وحشت اور بربریت کوایک بڑے
کارنامے کے طور پر سوشل میڈیا پر پیش کیا گیا۔یہ سب ایک زوال پذیر معاشرے کو ظاہر کرتا ہے جہاں انسانی قدروں کا احترام ختم ہوگیا اور وحشت کی حکمرانی ہے۔
یہ وحشت اور بربریت پولیس کی موجودگی میں ہوئی اورمشال کے پروفیسر ضیاء کے مطابق انہوں نے ایس پی سے اس معاملے میں مداخلت کا کہا تو اس نے جواب دیا کی ڈی ایس پی وہاں
موجود ہے اور وہ معاملات کو کنٹرول کرلے گا۔ یہ بربریت پولیس کی سرپرستی میں ہوئی ۔ مشال شہید کا جنازہ جب اس کے علاقے میں پہنچ تو وہاں کی مولوی نے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے گاؤں کے لوگوں کو مشال کا
جنازہ پڑھنے سے روکا دیا اور کہا جس نے جنازہ پڑا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا،لیکن بہادر شیرین خان نے مشال کا جنازہ پڑھنے کا علان کیا اور کہا وہ اس کے لیے ہر قوت کے سامنے کھڑاہے،یہی وہ ہمت ہے جس کی
ضرورت ہے جس سے فاشسٹ کی اس لہر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقع نہیں ہے ایسے بے شمار واقعات پچھلے عرصہ میں ہوئے ہیںیہ ریاست کی ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس میں اس نے ہر ترقی پسند،جمہوری اور متبادل نقطہ
نظر کو کچلا دیا ہے اور ایسے قوانین نافذ کئے ہیں جس کی بنیاد پر مخالفت کو کچل جاتا ہے۔پچھلے چند ماہ میں ریاست نے جس توہین کی بنیاد پر سوشل میڈیا بلاگرز اور دیگر غائب کیا اور جس طرح مختلف لوگوں کو
اس بنیاد پر ابھی قید وبند میں رکھا گیا ہے۔یہ سوشل میڈیا بلاگرز جو حکمران طبقہ اور ریاست کی پالیسوں پر تنقید کرتے ہیں۔لیکن توہین کا الزام ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے سی پیک،آپریشنوں اور خارجہ
پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو آسانی سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور ان لوگوں غدار، بیرونی ایجنٹ اور توہین کے مرتکب طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ حکمران طبقہ نظام کی بالادستی اور اپنی پالیسیوں کو لاگو
کرنے کے لیے فسطائی اقدامات کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔
ٓاس گھناونے جرم کے خلاف پورے ملک مظاہرے ہوئے یہ ایک تسلسل سے جاری ہیں ۔یہ واضح کررہے ہیں کہ لوگوں میں جدوجہد کا جذبہ موجود ہے اور وہ اس عفریت کو یوں اس سماج کو تباہ
کرنے نہیں دیں گئیں اور فسطائیت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔اس جدوجہد ہر کالج،یونیورسٹی،کام کی جگہ اور دیہاں میں منظم کرنے کی ضرورت ہے یوں ہی ایک وسیع تر تحریک فسطائیت کے اس اظہار کا مقابلہ کرسکتی
ہے۔