کام کی جگہ پر سیفٹی کے بغیر تمام کام نامنظور
گڈانی کراچی سے 60کلومیٹر کے فاصلے پرسمندر کے پاس ایک بستی ہے،یہاںیہاں محنت کش ناکارہ بحری جہازوں کو توڑتے ہیں۔اس کی شپ بریکنگ یارڈمیں ایک بحری جہاز توڑنے کو توڑنے کے دوران یک بعد دیگرے دھماکے ہوئے اور یوں یکم نومبر محنت کشوں کے لیے ایک موت کا پیغام لایا۔اس جہاز کو توڑنے کے لیے 250محنت کش کام کررہے تھے،جو بغیر حفاظی آلات کہ کام کررہے تھے. ابھی تک50محنت کشوں کی اس حادثے میں جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے،جبکہ 70سے زیادہ زخمی ہیں اور ایک 120مسنگ ہیں۔
یہ صنعتی تاریخ کا ایک بدترین حادثہ ہے ،پاکستان کے محنت کشوں کو روزانہ ہی ایسے حادثوں کا سامنا رہتا ہے۔
یہ بلدیہ کے بعد بدترین حادثہ ہے جس میں 289محنت کش آگ میں جھلس کرمر گے تھے۔یہ حکومت اور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت ہے۔جس کی قیمت گڈانی کے محنت کشوں نے اپنی زندگی کے خاتمہ کی صورت میں ادا کی۔گڈانی میں صرف ایک ہی فائر برگیڈ کی گاڑی ہے جو آگ لگنے کے بعد آگ پہنچی جو آگ بجھنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ۔گڈانی میں ہیلتھ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اس کے زخمیوں کو علاج کے لیے کراچی منتقل کرنا پڑا۔یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجود یہاں کسی ہسپتال کی تعمیر کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈمحنت کشوں کا قبرستا ن ہے، یہاں حادثات میں محنت کش جان بحق ہونے کے علاوہ زخمی ہوتے ہیں،جن میں سے بڑی تعدادمیں ہمیشہ کے لیے معذور جاتے ہیں۔ حادثات سے بچ جانے والے کیمیکلز،گیسوں اور دیگر خطرناک مواد کو محفوظ طریقے تلف کرنے یا ٹھکانے نہ لگانے کی وجہ سے جلد اور کینسر جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ان کیمیکلز کی وجہ سے گڈانی کے اردگرد کے علاقے میں آبی حیات تقریباََ ختم ہوچکی ہیں۔
جہاز کو تورنا ایک مشکل اور خطرے والا کام ہے اس میں غفلت اور بد احتیاطی مزدور کی جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہے ۔اس کے باوجود یہاں حفاظی اقدامات نہیں کئے جاتے۔اربوں روپے کا منافع کما کر دینے والے ان مزدوروں کے لیے کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں ہے،یہ کھارا پانی پیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ اکثر پیٹ کی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں،مالکان ان کو سیفٹی شوز،مخصوص دستانے،سفیٹی بیلٹ ،ہلمینٹ نہیں دیتے اور نہ ہی آگ بھجانے والے آلات جس کی وجہ سے ان کی زندگی ہمیشہ خطرات میں رہتی ہے ۔
شپ بریکنگ کے محنت کش ٹھیکداری نظام کے تحت کام کرتے ہیں اور ان کو کس قسم کی قانونی مراعات یعنی سوشل سیکورٹی،ای او بی،پنشن کا حق حاصل نہیں ہے۔
اس صورتحال کے خلاف مزدور اکثر احتجاج کرتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی یہ کوئی کامیابی بھی حاصل کرلیتے ہیں ۔لیکن اکثر مالکان،ٹھیکدار اور انتظامیہ مل کر ان کو دھوکا دیتے ہیں اس حادثے کے فوراََ بعد محنت کشوں کی بڑی تعداد اکھٹی ہوگی اور انہوں نے کام کی جگہ پر سیفٹی کے معیار کو نظرانداز کرنے پر شدید غم اور غصے کا اظہار کیا جو ایک احتجاج کی صورت میں بدل گیا۔
ٹریڈ یونینز اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک کانفرنس کی ضرورت ہے ،جو کام کی جگہ پر سیفٹی اور صحت کے لییطریقہ کار ترتیب دیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے کام کی جگہ پرمحنت کشوں کمیٹیاں قائم کی جائیں۔تاکہ سفیٹی اور صحت کے لیے ملکی سطح پر تحریک تعمیر کی جائے اوراس مجرمانہ غفلت کے خلاف اورصحت اور سفیٹی کے لیے پورے ملک میں احتجاج کی کال دی جائے۔ تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات سے بچاجاسکے۔