ینگ ڈاکٹرز کی فتح محنت کش طبقہ کی جدوجہد میں اہم قدم ہے۔یہ اس وجہ سے ممکن ہوسکی کیونکہ ینگ ڈاکٹرز نے تمام تر ریاستی حملوں کے باوجود یکجہتی کے تسلسل سے ہڑتال کو برقرار رکھا اور وہ کسی دباؤ میں نہیں آٗے۔یکم اگست کو ینگ ڈاکٹرز پنجاب نے لاہور میں مطالبات کے حق میں لانگ مارچ کیا،انہوں نے سروسز ہسپتال سے احتجاج کا آغاز کیا تولیس نے ان پر تشدد شروع کردیا اور ینگ ڈاکٹرز کی قیادت کوگرفتار کیا گیا۔جس کی وجہ سے ینگ ڈاکٹرز نے ہڑتال کردی۔لیکن اگلے دن ا ایمرجنسی کونسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کھول دیا، لیکن ان ڈور اور آوٹ میں ہڑتال برقراررہی ۔
ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات ماہر صحت کا سیکرٹری ہیلتھ کے تقرر، سینٹرل انڈکشن پالیسی کا خاتمہ، برن یونٹس کی تعداد میں اضافہ، نئے ہسپتالوں کا قیام، ڈاکٹرز کے لئے رسک الاؤنس اور انشورنس پالیسی، سروس سٹرکچر، نامکمل ہیلتھ پراجیکٹس کی تکمیل، ایڈہاک ڈاکٹروں کی ریگولرائزیشن اور انتقامی کارروائیوں کا خاتمہ شامل تھا۔
لیکن ان مطالبات پر توجہ دینے کی بجائے پنجاب حکومت نے ہڑتالی ڈاکٹروں کو برطرف اور تشدد کا نشانہ بنایا ۔ینگ ڈاکٹرز کی تحریک کے خلاف تمام میڈیا متحد تھا،اس کے باوجود ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال پنجاب بھر میں پھیل گئی یہ سب دھمکیوں،برطرفیوں تشدداورگرفتاریوں کے باوجود تھا۔میڈیا نے ینگ ڈاکٹرز کومجرم قرار دیا اور ان پر اموات کی ذمہ داری ڈالتا رہا ،ان کے مطابق ینگ ڈاکٹرز ہڑتال کرتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے مگر ان کو کوئی سزا نہیں ملتی اور سب بحال ہوجاتے ہیںیہ بھی پراپگنڈاکیاگیا کہ مسیحا تنخواہ میں اضافہ کے لیے احتجاج کررہے ہیں جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اموات پہلے سے ہی ہورہی ہیں ان کی وجہ ینگ ڈاکٹرز کااحتجاج نہیں ہے بلکہ علاج کے لیے مناسب وسائل کی عدم موجودگی ہے ۔حکومت بجٹ میں صحت پر رقم بڑھانے کی بجائے میٹرو اور ٹرینوں کی تعمیر میں مصروف ہیں ۔جدید طریقہ علاج میں ڈاکٹر زاکیلا علاج نہیں کرتا بلکہ یہ آلات،آپریشن تھیٹر اور ادویات،جن کی عدم موجودگی میں ڈاکٹرکی حیثیت مشورہ دینے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا،پاکستان میں صحت نہایت ہی کم ہے،یہ حکمران طبقہ کے ترجیحات کو واضح ہے کہ اس کو کس قدر عوام کے دکھ،درد کی پرواہ ہے۔
پاکستان 1400افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ہے ۔جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں 300افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ہوتا ہے اورسہولیات کا یہ عالم ہے کہ ایک بیڈ پرتین تین مریض ہوتے ہیں۔پنجاب حکومت ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے مختلف طریقوں سے صورتحال کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہے اور جب ینگ ڈاکٹرز احتجاج کرتے ہیں تو ایک ایسی صورتحال بنا دیتی ہے جس سے مریض اور ان کے لواحقین متاثر ہوتے ہیں۔
شہریوں کو مفت اور معیاری طبی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے ،لیکن پنجاب حکومت کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ینگ ڈاکٹر،نرسز اور پیرامیڈیکل کو ان کی ضروریات کے مطابق تنخواہ ملتی ہے۔ان حالات میں محنت کش اور غریب زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو نجی ہسپتالوں میں مہنگے علاج نہیں کرواسکتے۔لیکن حکومت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑاور یہ خود عوام کے ٹیکسوں پر بیرون ملک علاج کے لیے جاتے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز کی اکثریت نجی پریکٹس نہیں کرتے اور وہ سرکاری تنخواہ پر گزار کرتے ہیں۔ یہ ٹریننگ کے دوران بغیر معاوضے کے بھی کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جن ینگ ڈاکٹرز کو معاوضہ ملتا بھی ہے ان کی اکثریت ایڈہاک پر کام کرتی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کواکثر 24 سے 36 گھنٹے تک مسلسل کام کرنا پڑتاہے۔یہ حالات ینگ ڈاکٹرزکواحتجاج اور ہڑتال میں دھکیل دیتے ہیں۔یہ صورتحال صرف ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اس حکومت کی پالیساں محکمہ صحت کے تمام محنت کشوں کو احتجاج میں لاتیں ہیں۔اگر محکمہ صحت کو بہتر بنانا ہے اور ینگ ڈاکٹرز سمیت دیگر کے مسائل کو حل کرنا ہے تو اس کے لیے ان کو مل کر مشترکہ لا ئحہ عمل اور تحریک بنانی ہوگی جواپنے ساتھ دیگر اداروں کے محنت کشوں کو بھی جوڑے۔