128یوم مئی دنیا بھر میں ایک ایسے موقع پر منایا جارہا ہے،جب سرمایہ دارنہ نظام کے بحران نے سماجی،سیاسی بحرانوں کو
جنم دیا ہے۔سرمایہ دار طبقہ محنت کشوں کی مراعات پر بڑے حملے کررہا ہے ،وہ چاہتاہے کہ محنت کش اس بحران کی قیمت ادا کریں جو سرمایہ داروں کا پیدا کردہ ہے۔اس کے ساتھ عرب اور دیگر ممالک میں جمود کو عرب
بحران نے ختم کردیا تھا وہاں اب ردانقلاب،خانہ جنگی اور سامراجی کشمکش جاری ہے۔جس نے ایک خطرناک صورتحال کو جنم دیا ہے۔جس نے جہاں ایک طرف امریکہ کی خطے میں بالادستی کا خاتمہ کردیا وہاں نئی قوتوں کے
درمیاں بالادستی کے لیے کشمکش جاری ہے۔اس صورتحال نے داعش جیسی خوفناک تنظیم کو جنم دیا ہے۔ان حالات میں سعودی عرب کی یمن میں مداخلت جہاں وہاں کے عوام کے لیے تباہی اور بربادی لے کر آرہی ہے اس کے ساتھ
مشرق وسطی میں ایک ایسی لڑائی کا آغاز کررہی ہے جو خطے کو مزید عدم استحکام میں دھکیل دے گی۔
پاکستان کے محنت کشوں کے حالات زندگی دگردوں ہیں،8گھنٹے یومیہ کا ایک خواب ہے،فیکٹریاں اور کارخانے محنت کشوں کے لیے
بیگار کمپ بن چکے ہیں،جہاں نہ ہی تنخواہ مین اضافہ ہوتا ہے اور نہ کم ازکم اجرت پر عمل،سوشل سیکورٹی تو ایک ایسے خواب ہے جو اب مزدور دیکھتے بھی نہیں،اکثریت کے پاس ٹریدیونین کا حق نہیں ہے۔پاکستان کے
حکمران ایسی پالیسیاں اور قوانین پر عمل پیرا ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرف شعوری طور پر مزدور تحریک کو کمزور کررہے ہیں۔دوسری طرف یونین سازی کے عمل میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔
نجکاری،ڈوان سازی ،جبری برطرفیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایت پر پالیسیوں پر عمل سے استحصال
شدت،غربت،مہنگائی،بیروزگاری اور معاشی بدحالی میں شدید اضافہ ہورہا ہے۔تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات ان کی پہنچ سے دور ہوگئیں ہیں۔حکمران طبقہ کی نیولبرل پالیسیوں کی وجہ سے محنت کشون کی اکثریت کی
زندگی تباہ ہوگی ہے۔
پبلک سیکٹر کو نجکاری کے ذریعے سرمایہ داروں کو لوٹ مار کا مواقع فراہم کیا جارہا ہے،واپڈا،ریلوئے،پوسٹ آفس،پی آئی
اے اور دیگر اداروں کی نجکاری کا عمل جاری ہے،جو نہ صرف محنت کشوں کے لیے نوکریوں سے برطرفی،مراعات میں کمی اور ٹریڈ یونین کے حق پر ڈاکہ ہوگا،بلکہ اس کے سماج پر بدترین اثرات مرتب ہوں
گے۔
سرمایہ داری نظام ایک طبقاتی نظام ہے جس میں سرمایہ دار اور ا س نظام کے رکھولے ہم پر مسلط اور قابض ہیں۔یہ ہمارے
استحصال کی بدولت انتہائی شاہانہ زندگی بسر کررہے ہیں اور
ان کو دنیا کی ہر نعمت میسر ہے۔جبکہ محنت کش جن کی بدولت سب پیدوار اور منافعے ہیں۔وہ بنیادی سہولیات سے محروم
ہیں۔ملوں میں کپڑا مزدور کی محنت سے بنتا ہے جو خود اسے خریدنے سے قاصر ہے،وہ مکان تعمیر کرتے ہیں لیکن اس میں رہ نہیں سکتالے ،کھیتوں میں کام کرنے والے کسان۔اور مزارع کو پوری خوراک نہیں ملتی۔ محنت کش
یطبقہ بنیادی جمہوری اور سیاسی حقوح محروم ہیں اور یہ اس طبقاتی نظام کی وجہ سے ہے۔
ان حالات میں جب دنیا بھر میں سرمایہ دارنہ نظام کے خلاف جدوجہد جاری ہے،آج ٹراٹسکی کے مطابق انسانیت کا بحران سمٹ
کر قیادت کے بحران بن گیا ہے۔آج ایک یسی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جو سامراج اور ریاست کی جنگ کی مخالفت کرئے،ہر قسم کی نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرئے اور ان کو محنت کش طبقہ کے انقلاب سے منسلک
کرئے،یوں ہی سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کی نوید بن سکتا ہے۔
۱)دہشت مخالف جنگ اور ریاستی
آپریشنز فوری طور پر بند کیا جائے۔
۲)بلوچ قوم کو حق خوداردیت کا حق دیا جائے،تمام مسسنگ پرسنز کو بازیاب کیا جائے۔
۳)سعودی عرب کی یمن پر جارحیت نامنظور۔
۴) واپڈا سمیت تمام اداروں کی نجکاری نامنظور اور نجکاری کیے گے اداروں کو دوبارہ ریاستی تحویل میں لے کر محنت کشوں
کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔
۵)محنت کشوں کی کم از کم تنخواہ 25000روپے قرر کی جائے۔
۶)خواتین کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔
۷)نیولبرل اکنامکس کے تحت تمام تر مزدور اور عوام دشمن پالیسیوں کو ختم کیا جائے۔