انڈیا میں 8اور9جنوری کو ہونے والی ہڑتال مزدور تحریک کی تاریخ میں ہونے والے سب سے بڑی ہڑتال تھی جس میں20کڑور
سے زائد محنت کش شریک ہوئے اس نے پورے انڈیا کو جام کرکے رکھا دیا۔اس ہڑتال کی کال دس ٹریڈ یونینوں نے مودی حکومت کی نیولبرل پالیسیوں کے خلاف دی۔
نجی اور سرکاری تمام شعبوں سے بڑی تعداد میں محنت کش ہڑتال میں شریک ہوئے جس میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے محنت کش
بھی شامل تھے۔ٹریڈ یونینوں کی رپورٹ کے مطابق اس میں بڑی تعداد میں فارمل اور غیر فارمل سیکٹرز سے محنت کش شریک ہوئے جس میں تعمیراتی صنعت،ڈومیسٹک ورکرز، ہوم بیسڈ ورکرز ،رکشہ اور زرعی محنت کش بھی شریک
ہوئے تھے۔
یہ ہندوستان کے محنت کشوں کی تیسری بڑی ہڑتال ہے پچھلے عرصہ میں ہندوستان کا محنت کش باربار جدوجہد میں آرہے ہیں
اور حکمران طبقہ کی مزدور مخالف پالیسیوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔یہ دو روزہ ہرتال پچھلی دو ہڑتالوں کے تسلسل میں ہے لیکن یہ سب سے بڑی ہے اور اس میں 20کڑور سے زائد محنت کش شریک ہوئے ہیں۔اس میں تمام ٹرید
یونین فیڈریشنز شامل ہوئیں سوائے بھارتیہ جنتا کی ٹرید یونین کے۔اس ہڑتال کو طلباء اور کسانوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر حمایت ملی۔پورے ملک میں مختلف مظاہروں اور دھرنوں میں طلباء،نوجوان،خواتین اور کسان
شامل ہوئے۔ان سب نے مل کر مختلف جگہوں پر ریل کو بھی بند کیا اور مختلف سڑکیں بھی بند کیں گئیں۔
اس ہڑتال نے حقیقت میں ہندوستان کی سب ریاستوں میں زندگی کو معطل کردیا اور ٹریفک بھی بند رہی ۔لیکن اس ہڑتال کا
سب زیادہ زور صنعتی علاقوں میں تھا۔جہاں محنت کشوں نے انتظامیہ اور پولیس کی طرف دھمکیوں اور تشدد کے باوجود مکمل ہڑتال کی اور حکمران طبقہ کی پالیسیوں کو ناکام بنا دیا۔حالانکہ کہ کانگرس کی ٹرید یونین
اس ہڑتال کی حمایت کررہی تھی لیکن کانگرس کی مقامی حکومت اس ہڑتال کے خلاف سرمایہ دار طبقہ کے ساتھ کھڑی تھی۔
انڈیا کے محنت کش طبقہ کی یہ مسلسل تیسری ہڑتال ہے جس نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ حقیقت میں طاقت کدھر ہے اور
کون ہے جس کی وجہ سے نظام زندگی چل رہا ہے۔یہ تحریک تمام تر جبر وتشدد اور مختلف ہتکھنڈوں کے باوجود کامیاب رہی ۔لیکن اس سب کے باوجود ٹریڈ یونین قیادت اور کیمونسٹ پارٹیوں کو پاس مودی کی حکومت اور اس
کی پالیسیوں کو شکست دینے اور سرمایہ داری کے خاتمے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ان کی حکمت عملی صرف اس بات کے گرد ہے کہ مودی کی دائیں بازو کی رجعتی حکومت کا خاتمہ کیا جاسکے اور وہ سڑکوں پر جدوجہد کے
ذریعے نہیں بلکہ الیکشن میں کانگرس کے ساتھ اتحاد بنا کر یوں یہ اس عظیم جدوجہد اور جذبہ کو کانگرس کی بورژوا حکومت کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔جب کہ اصل سوال یہی ہے کہ کیسے اس صورتحال میں بی جے
پی ہی نہیں بلکہ کانگر س پر مشتمل حکمران طبقہ کے اتحاد کو بھی شکست دی جائے اور محنت کش طبقہ کا متبادل پروگرام پر محنت کشوں کی دفاعی لڑائی کو سرمایہ داری نظام کی جنگ اور بربریت کے خلاف استعمال کیا
جائے۔