پچھلے چندہفتوں میں 125000روہنگیامسلمان بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد میانمار اور بنگلہ دیش کی سرحد پر موجود ہیں۔روہنگیا مسلمان سمندری راستے سے بنگلہ دیش جارہے ہیں اور اس
دوران سمندر میں ڈوب جانے کے علاوہ، میانمار کی فوج نے بنگلہ دیش کی سرحد پر لینڈ مائینز لگیں ہیں جس کی وجہ سے پہلے سے قتل و غارت کے شکار روہنگیا مزید زخمی اور موت میں منہ میں جارہے ہیں ۔بنگلہ دیش
کے کیمپوں میں اس وقت لاکھوں روہنگیا موجود ہیں ان کیمپوں کی صورتحال بہت بری ہے۔ان میں خوراک پینے کے پانی،ادویات ندرت ہیں اور مہاجرین کی آمدکی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔
میانمارکے صوبے راخین میں مسلم قلیت کے عسکریت پسندوں پولیس کی 30 پوسٹوں پر حملے کئے،ارکان روہنگیا سلویشن آرمی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔اس تنظیم کے مطابق ان حملوں کی شمالی روہنگیا کے علاقے
یوتھیدانگ کا دوہفتے سے جاری محاصر تھا جس کی وجہ سے یہاں لوگ بھوک کی وجہ سے مر رہے تھے اوروہ منگڈاؤ میں بھی ایسی ہی صورتحال کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔جس کے ردعمل میں حملے کئے گئے تاکہ قابض برما کی
فوج اور پولیس کو پیچھے دھکیلا جاسکے۔
آرمی چیف کے مطابق سیکورٹی فورسز اور روہنگیا کے درمیان مختلف جھڑپوں میں 400ہلاکتیں ہوئیں ہیں ۔ان 400میں سے371روہنگیا کے جنگجو ہیں جن کو میانمار کی حکومت اور فوج نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔لیکن
میانمار کی فوج عام لوگوں کو مار رہی ہے،ن کو زندہ جلایا جارہا ہے اور خواتین کے ریپ کئے جارہے ہیں۔یہ حملے روہنگیا کی مظلوم مسلم آبادی پر خوفناک استحصال اور جبر کا نتیجہ ہیں ۔روہنگیا کی 20لاکھ مسلم
اقلیت کو میانمار کی حکومت کی طرف سے کئی دہائیوں سے جبر اور تشدد کا سامنا ہے۔ان کی اکثریت راخین صوبے میں رہتی ہے ۔روہنگیا کی مسلم آبادی میانمار کی برطانیہ سے آزادی کے بعد سے خودمختاری یا مکمل
آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
میانمار میں بے شمار نسلی گروپ موجود ہیں جن میں سے135مختلف نسلی گروہ ہیں جن کو حکومت تسلیم کرتی ہے ۔میانمار میں بڑے نسلی گروپ شان،کیرن،مون اور روہنگیا مسلم ہیں۔میانمار میں ماضی میں نام نہاد سوشلسٹ
حکومت رہی ہے لیکن ان کی پالیسیاں بھی انتہا پسند برما قوم پرستی پر مشتمل تھیں جن کے تحت دیگر نسلی گروپوں کی طرف ان کا رویہ انتہائی شاونسٹ تھا۔
1982میں برما کی فوجی آمریت کے شہریت نے نئے قانون نے روہنگیا کوبرما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا،جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں ان کے داخلے اور پبلک سیکٹر کی نوکریوں کا ان کے لیے خاتمہ ہوگیا۔اس
کے علاوہ ان کے سفر،شادیوں،مذہبی آزادیوں اورعلاج کی سہولتوں پر مختلف پابندیاں عائد کردی گئیں۔
روہنگیا مسلم کے خلاف مختلف کریک ڈؤان میں لاکھوں روہنگیا مسلم بنگالہ دیش ،تھائی لینڈ،ملیشیاء اور دیگر ممالک میں ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ایسے ہر حملے کے دوران روہنگیا مسلمانوں کو شدیدجبر و تشدد،قتلِ
عام اورریپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔روہنگیا کے1000میں سے224بچے پیدائش کے وقت ہی مرجاتے ہیں کیونکہ ان کے علاج کی سہولتوں پر پابندیاں عائد ہیں ۔یہ اموات برما کی دیگر نسلی گروپوں کے مقابلہ میں 4گنا
زیادہ ہے۔روہنگیا آبادی کے محاصر،خوفناک جبروتشدد،قتلِ عام اور ریپ جیسے وحشت اور بربریت کی وجہ سے برما میں روہنگیا آبادی کم ہو کر اب1.3ملین رہ گئی ہے۔
پاکستان میں تو اسے صرف مذہب کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔لیکن اس کے پس منظر میں معاشی وجوہات ہیں،جس برطانوی نوآبادیات عہد میں انڈیا سے بڑی تعداد میں لوگوں کام کی غرض سے برما لایا گیا جنہوں
نے اس عہد میں معیشت میں اہم مقام بنالیا تھا جس کی وجہ سے برما کے قوم پرست اور خاص کر مارکیٹ میں ان کی طرف نفرت اور غصہ بہت واضح تھااور اسی عناد کی وجہ سے انہیں جبر و تشدد کا سامنا رہا ہے۔لیکن
روہنگیا کی مسلم آبادی یہاں 15صدی سے موجود ہے۔
آنگ سان سوچی کی طرف سے اس وحشت اور بربریت کی خاموش حمایت موجود ہے،اسے عالمی سطح پر ایک جمہوری راہنماء کے طور پر مانا جاتا ہے جیسے طویل جمہوری جدوجہد کی وجہ سے نوبل انعام بھی دیا گیا تھا اور آج
بھی اس بدترین مجرمانہ خاموشی کے باوجود لبرل اور مغرب اس کی حمایت کرہے ہیں۔
مجرمانہ حمایت حاصل ہے جوحقیقت میں 2016سے برما کی حکومت چلا رہی ہے،جس کو عالمی سطح جمہوری راہنما کے طور پر کافی پذارائی حاصل ہے۔
انقلابی ورکرز آرگنائیزیشن روہنگیا کے مسلمانوں پر وحشت اور بربریت کی مذامت کرتی ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ میانمار میں روہنگیا اور دیگر اقلیتوں کو مکمل شہریت کے حقوق دئے جائیں اورانہیں مکمل حق
خوداختیاری حاصل ہو چاہیے وہ میانمار میں رہیں ،آزاد مملکت قائم کرئیں یا بنگلہ دیش سے الحاق کریں ۔اس کااختیار روہنگیا کو ہونا چاہیے روہنگیا کے مسلمانوں کی مسلح مزاحمت کی حمایت کرنی چاہیے۔
لیکن ہم ان کے اسلام پسندی اور پٹی بورژوا قوم پرستی کے نظریات کو مسترد کرتے ہیں جس کے تحت ارکان روہنگیا سلویشن آرمی اور1948سے اب تک اس کی پیشرو تنظیمیں کام کرتی رہیں ہیں۔لیکن اس کے باوجود روہنگیا
کی جدوجہد حق پرہے اور سوشلسٹوں اور جمہوریت پسند کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔