سرمایہ دارانہ بجٹ کا عذاب اور محنت کش طبقہ

 

 

وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے53کھرب دس ارب کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے اسے ترقیاتی بجٹ قرار دیا ۔یہ بجٹ بھی نیولبرل اکنامک پالیسیوں کا تسلسل ہے جس آغاز 80کی دہائی میں ہوا تھا جس کا مقصد آزادمعیشت کا قیام تھا جس میں سرمایہ کو نقل وحرکت کی آزادی ہو اور،ریاست کی معیشت میں مداخلت ختم کی جائے ،قومی اداروں کی نجکاری کی جائے، ٹھیکیداری نظام کو رائج کیا جائے۔تاکہ سرمایہ کومنافع کے مواقع میسر ہوں۔ ان کے مطابق نیولبرل معاشی پالیسیاں ہی سے ترقی ممکن ہے۔اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکون سے حکومت ہو پچھلی دہائیوں میں تمام حکومتیں انہیں پالیسیوں پر ہی گامزن رہیں اور حقیقی طور پر ان کے درمیان فرق ہی نہ تھا۔ ان کا مقصد سرمایہ داروں کا منافع ہوتا ہے تاکہ عالمی اور قومی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی جائے یوں سرمایہ دار کے مفاد کو ساری قوم کا مفاد بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

 

معیشت کی تمام تر ترقی جیسے 5.3فیصدبرھتوری ور معیشت کے حجم کا 300ارب ڈالر ہوجانااس کی بنیادی وجہ محنت کش طبقہ ہے جن کی محنت سے ہی دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔جس سے سرمایہ کے تمام حصے مستفید ہو رہے ہیں۔یہ ان کی کمپنیوں کی دولت کے میں اضافہ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح 80کی دہائی سے ان کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔دوسری طرف بڑی تعداد میں محنت کشوں اور غریب عوام کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں۔

 

سرمایہ دار طبقہ ٹیکس نہیں دیتا البتہ محنت کش اور غریب عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے ۔سرمایہ داروں کو ٹیکس دینے کی بجائے قومی معیشت کے نام پرٹیکس میں چھوٹ دی جاتی ہے سٹاک مارکیٹ میں چند سالوں میں 16ہزار سے بڑھ کر50ہزار پوائنٹ ہوگئی ہے اورانہیں کھربوں روپے کا منافع ہوا لیکن ان پر ٹیکس نہایت کم ہے اسی طرح ٹیکسٹائیل،سرجیکل اور دیگر ایکسپوٹرز کوبڑے پیمانے پر ریبٹ کی صورت میں چھوٹ دی گئی ہے۔

 

غیر رسمی شعبہ میں محنت کشوں کی بڑی اکثریت نہایت کم اجرت پر 12سے14گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہے ۔مزدور کش قوانین کا نفاذ قومی معیشت اور ترقی کے نام پر کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میںیہ ترقی ہموار نہیں ہوتی جی ڈی پی اور فی کس آمدنی میں اضافہ کا فائدہ سرمایہ دار طبقہ اور اپر مڈل کلاس ہوتا ہے۔۔اس بجٹ میں 1400ارب روپیہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور دفاع پر920ارب روپے خرچ ہوگا اور ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب ہوگا، ترقیاتی بجٹ سرمایہ داروں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔

 

معیشت کی ترقی، جمود ہویا گرواٹ کا شکار ہو اس کی پالیسیوں کوبنانے میں محنت کش اور عام لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔اس بات کا فیصلہ کہ کس مقصد کے لیے کیا قرض لیا جائے یا فارن پالیسی کیا ہوگی ،حکمران طبقہ اپنے مفاد میں کرتا ہے۔جن کی قیمت غریب عوام اور ان کی نسلیں غربت،بھوک اور بے روزگاری کی صورت میں ادا کرتی ہیں۔پاکستان کا کل قرضہ اس وقت 23,000ارب روپے ہے جس میں پچھلے چند سالوں میں 1600ارب کا اضافہ ہواہے۔یہ سب کچھ ملکی ترقی اور معیشت کے نام پر ہوتا ہے ۔

 

صحت اور تعلیم کوعام آدمی کی پہنچ سے باہر کردیا گیا ہے حکومت اس طرف توجہ دینے کی بجائے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں مگن ہے اور صحت پر جی ڈی پی کا صرف0.8فیصداور تعلیم پر 2فیصد خرچ کیا جاتاہے۔جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت علاج کی سہولتوں سے محروم ہے،90فیصد آبادی مضر صحت پانی پیتی ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔کروڑہا بچے تعلیم سے محروم ہیں۔

 

محنت کشوں کی تنخواہ میں ایک ہزارروپے کااضافہ کرکے اسے 14ہزار سے 15ہزار کردیا گیا ہے لیکن یہ محدود تعداد میں محنت کشوں کو ملتی ہے اور اکثریت کنٹریکٹ پر 8سے 12ہزارپر کام کرنے پر مجبور ہیں۔

 

یہ واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں بجٹ کا مقصد سرمایہ داری کے لیے منافع کے نئے مواقع اور محنت کشوں کوحاصل مراعات کا خاتمہ ہوتاہے۔

حکمران طبقہ کے تمام تر دعوں کے باوجود معیشت کی صورتحال ایک مختلف خطرناک ہے اور یہ جہاں اس ترقی کا مطلب امیر اور طاقتور کی ترقی ہے اس کے ساتھ اس کی ایکسپورٹ میں اس سال25فیصد کمی ہوئی ہے اور درآمدات بڑھ کر 48ارب ہوگئیں ہیں۔جس کی وجہ سے کرنٹ اکاونٹ خسارہ28ارب کا ہے۔یہ بہت بڑا فرق ہے اور یہ معیشت کے لیے شدید خطرہہے۔جس کا حل سرمایہ دارطبقہ کے پاس سبسڈیز میں خاتمہ ،ٹیکسوں میں اضافہ اور مزید قرضے ہیں۔یہ واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ بحران کا سرمایہ داری میں کوئی حل نہیں ہے اس کے لیے اس نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔