انقلابی ورکرز تنظیم
پاکستان میں کئی روز تک تحریک لبیک کی طرف سے دھرنے اور مظاہروں کی وجہ سے نظام زندگی معطل ہوگیا تھا یہ سپریم کورٹ کے آسیہ بی بی کی بریت کے حوالے سے فیصلہ سے غصے میں تھے۔31اکتوبر کو سپریم کورٹ کے
فیصلہ کے تحت آسیہ بی بی کے حق میں فیصلہ دیا گیا اور عدالت نے اس پر لگے گے توہین رسالت کے الزام کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا۔آسیہ بی بی اس جھوٹے الزام کی وجہ سے پچھلے آٹھ سال سے قید میں تھی اور
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ واضح ہے کہ پہلے ہونے والے فیصلہ ڈر اور دباؤ کی بنیاد پر تھے۔اس کے باوجود آسیہ بی بی حکومت کی حفاظتی تحویل میں ہے اور اس کو ملک سے باہرجانے نہیں دیا
جارہا۔
یہ واضح ہے کہ آسیہ بی بی کبھی توہین کی مرتکب ہوئی ہی نہیں تھی یہ کیس اس قانون کے رجعتی کردار کو بھی ظاہر کرتا ہے اور حکومتیں اکثر اس قانون کو اپنے مفادات میں استعمال کرتی ہیں۔آسیہ بی بی پانچ بچوں
کی ماں ہے اور اس کا تعلق پنجاب سے ہے ۔اس کے کھیت میں کام کے دوران پانی کے مشکیزے کو منہ لگانے پر دیگر دوخواتین سے جھگڑا ہو جو مسلمان تھیں اور آسیہ بی بی کرسچن تھی بعدازں مقامی مولوی کی اس جھگڑے
میں شمولیت سے یہ جھگڑا مزہبی معاملہ بن گیا اور آسیہ بی بی کے کیس کے حوالے سے مقامی انتظامیہ سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک میں مکمل جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا اور ہائی کورٹ کا فیصلہ تو یہ ظاہر کررہا
تھا کہ پورا کیس ہی غلط بینی پر مبنی ہے لیکن اس کے باوجود ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو برقرار رکھا.آسیہ بی بی کی وجہ سے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر بھی قتل ہوا اور ایک کرسچن منسٹر کا بھی قتل ہوا۔اس
کیس کو اسلامی جماعتیں سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہیں اور سلمان تاثیر کے قاتل کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا بعدازں اس کی پھانسی نے تحریک لبیک کو جنم دیا جو انتہائی رجعتی اور فاشسٹ رجحان
رکھتی ہے۔پچھلے چند سالوں میں حکمران طبقہ اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا رہا ہے اور حالیہ الیکشن میں اس نے مناسب تعداد میں ووٹ حاصل کئے اور اسمبلی میں چند ایک نشستیں بھی جیتی ہیں۔یہ ایک نہایت
خطرناک رجحان ہے جو پاکستان میں ایک ردانقلابی خطرہ ہے اور جیسے ابھی تک حکمران طبقہ اپنی لڑائیوں میں استعمال کررہے ہیں ۔آسیہ بی بی کے فیصلے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگے
اور تحریک لبیک کے قائدین نے حکومت اور ریاست کے خلاف نہایت باغیانہ زبان استعمال کی اور ان کے قتل کے فتوے تک جاری کردے گے ۔میڈیا پر اس حوالے سے تقریباََ بلیک آوٹ ہی جاری رہا ۔اسی جماعت نے پچھلی
حکومت کے عہد میں اسمبلی میں حلف نامے کی بنیاد پر مسلم لیگ نوار کی حکومت کو شدید بحران میں مبتلا کردیا تھا جس میں بعد میں فوج کی مداخلت اور حکومت کی شرمندگی سے معاملہ طے ہو اور اب جب آغاز میں
تحریک انصاف کی حکومت نے ان سے کڑے ہاتھوں سے نبھٹنے کی بات کی تو مسلم لیگ نواز نے اس معاملے میں تعاون سے انکار کردیا اورریاست کے دیگر ادارے بھی اندرونی توڑ پھوڑ سے خوفزدہ تھے اور ان حالات میں
تحریک انصاف کے اندار بھی ایک دباؤ موجود تھا کہ معاملہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔جیسے تحریک انصاف کی حکومت نے ایک شرمناک معاہدے کے بعد طے کرلیا۔
اس ساری صورتحال میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حکمران طبقہ اور اس کی ریاست اس رجعتی اور فاشسٹ رجحان سے لڑنے میں د؛لچسپی نہیں رکھتی اور یہ محنت کشوں،مظلوموں اور اقلیتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اگلے
بحران میں یہ نہایت وحشت ناک صورتحال اختیار کرسکتا ہے اور اس کا مقابلہ محنت کش طبقہ ہی کام کی جگہ پر منظم ہوکرکرسکتا ہے۔