ہندوستان: مودی کے "اسرائیل طرز" حملے سے کشمیری عوام کا دفاع کریں
آئی ایم ایف کا معاہدے۔۔۔۔۔۔۔محنت کشوں پر بڑے حملے کی تیاری
ہندوستان کے محنت کشوں کی تاریخ ساز دو روزہ ہرتال
آسیہ بی بی کے حق میں فیصلہ اوررجعتی تحریک
سرمایہ دار طبقہ کی جیت اور محنت کش عوام
تحریک انصاف کی فتح اور محنت کش طبقہ
پاکستان میں جمہوری حقوق کی تحریکیں
مئی ڈے2018کے مواقع پر تمام انقلابیوں کو مبارک باد
آج کے عہد میں انقلابی اتحاد کے پلیٹ فارم کے لئے چھ نقاط
سات سالہ بچی زینب کا ریپ اور قتل کے خلاف ابھرتی ہوئی خواتین کی تحریک
اسلامی انتہاپسندی کی شدت میں اضافہ اور محنت کش طبقہ
محکمہ آبپاشی کے محنت کشوں کے کواٹروں کی مسماری کے خلاف احتجاج
روہنگیا مسلمانوں کا قتلِ عام نامنظور
نواز شریف حکومت کا خاتمہ اورکرپشن
سرمایہ دارانہ بجٹ کا عذاب اور محنت کش طبقہ
مشال خان کا قتل اور فسطائیت کی بڑھتی ہوئی لہر
سرمایہ دار طبقے کی ترقی اور محنت کشوں کا بڑھتا ہوا استحصال
گڈنی میں سرمایہ دارنہ آگ میں جلتے محنت ک
سامراجی جنگ اور دہشت گردی نامنظور
پی آئی اے کے محنت کشوں کی جدوجہد کو سرخ سلام
یوم مئی 2015:سامراجی جنگ کی مخالفت اور سوشلسٹ انقلاب تک ناقابل مصالحت جدوجہد
نادار کے محنت کشوں کی احتجاجی بھوک ہڑتال
سامراجی جنگ اور دہشت گردی نامنظور
بھٹہ مزدور جوڑے کا قتل انسانیت کے خلاف جرم ہے
حکمران طبقہ کا بڑھتا ہوا بحران
اسرائیل کازمینی حملہ شروع ،غزہ کی حفاظت کرو،اسرائیل کی جنگ کو شکست دو
نجکاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محنت کشوں پر حکمران طبقہ کا بڑا حملہ
محنت کشو اور دنیا بھرکے مظلوم، آزادی کی جدوجہد میں متحدہوجاؤ
ہزارہ اور اہل تشیع کا قتل عام بند کرو
پاکستان میں بجٹ کامطلب مہنگائی،بے روزگاری اور غربت ہوتا ہے بجٹ حکمران طبقہ کی طرف سے محنت کشوں پر حملوں کا ایک پروگرام ہوتاہے۔اس لیے بجٹ سے پہلے سرمایہ داروں سے مشاورت کی جاتی ہے اورکہہ جاتا ہے
کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کاروبار دوست بجٹ پیش کرنا چاہیے۔اسے میں حکومت کے لیے بھی آسان ہوجاتاہے کہ وہ سرمایہ داروں کے مفادات کا مکمل خیال رکھے۔
کورونا وبا کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے جب بجٹ پیش کرنے کا وقت آیا تو سب کو معلوم تھا کہ سرمایہ داروں کے مفاد میں بجٹ پیش ہوگا حالانکہ لاک ڈاؤن سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ محنت کش طبقہ ہے
کی وجہ سے معیشت چلتی ہے اور اگر وہ کام نہ کرے تو سماج رک جاتاہے منافع ختم ہوجاتاہے اور تیزی کے ساتھ عدم استحکام کا شکار ہوجاتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بجٹ سے پہلے کورونا وبا کے نام پر سرمایہ داروں کھربوں روپے کا پیکچ دیا ہے۔ جس سے ایکسپوٹرز،بڑے صنعت کار،رئیل اسٹیٹ،بلڈرز،بجلی کی کمپنیوں کے علاوہ دیگر سرمایہ داربھی
مستفید ہوں گے۔تعمیراتی پیکچ کا مقصد سرمایہ داروں کے کالے دھن کو سفید کرنا ہے۔اس سب کے باوجود مالکان کہہ رہے ہیں کہ ہم کام کے بغیر مزدوروں کو تنخواہ نہیں دئے سکتے ہیں جو محنت کش کام کررہے ہیں ان
کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کی گئیں بلکہ بڑی تعداد میں ان کو نوکریوں سے نکال دیا گیا اور یہ سب وہ بڑے سرمایہ دار اور مالکان کررہے ہیں جن کو حکومت کی طرف سے ہر طرح کی ریلیف ملی ہے۔
اس صورتحال میں وفاقی وزیر حماد اظہر نے بجٹ پیش کیا۔اس وفاقی بجٹ کا حجم7136ارب روپے ہے اس میں حکومتی آمدن کا ہدف 6573 ارب روپے ہے جس میں سے 5464 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہے جبکہ دیگر آمدن 1100 ہے۔ کل
ٹیکس میں سے 4963ارب ہے جوایف بی آرکے ذریعے اکٹھے کیئے جائیں گئیں جبکہ475 ارب روپے کی ٹیکس آمدن پیٹرولیم کی مصنوعات سے حاصل کی جائیں گئیں۔ صوبوں کووفاق سے 2874 ارب ملے گئے جس کے بعدوفاق کے پاس
3700 ارب روپے بچیں گئے لیکن صوبے بچت کریں گئیں اور242ارب کی رقم وفاق کو واپس کریں گئیں اس کے باوجود وفاق کے پاس اپنے اخرجات کی تکمیل کے لیے 3942ارب روپے ہوں گئیں۔اس کامطلب ہے کہ بجٹ خسارہ تقریبا
3200 ارب روپے ہو گا اور یہ جی ڈی پی کے 7 فیصد کے برابر بنتا ہے۔ اس بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 2400 ارب روپے کے نئے اندرونی قرضے اور 810 ارب روپے کے نئے بیرونی قرضے لیے جائیں گے۔ اس کے
علاوہ 100 ارب ریاستی اداروں کی نجکاری کے ذریعے حاصل ہوں گئے۔
یہ ساری تصویر تو وہ ہے جو حکومت نے بجٹ میں پیش کی ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ تمام تر عالمی معاشی بحران کے باجود پاکستان جس کی اس وقت معاشی گروتھ 0.4ہے وہ ایک معاشی معجزے سے2.1فیصد ہوجائے گی لیکن
یہ ایک مذاق تھا اور سب کو پتہ تھا کہ اس مالی سال یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس بات کے امکانات ہیں کہ معاشی گروتھ منفی2فیصد تک جاسکتی ہے۔
ہر بجٹ کی طرح اس بجٹ کا بڑا حصہ بھی دو مدوں میں خرچ ہوگا ایک 2950ارب اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کی مد میں اور دوسرا دفاعی بجٹ جو اس دفعہ1290ارب ہے جبکہ پچھلے سال نسبت اس میں 140ارب روپے زیادہ ہے
لیکن حقیقت میں فوجی بجٹ اس سے کہیں زیادہ ہے البتہ اسے مختلف مدوں میں تقسیم کردیا جاتاہے تاکہ اس کا حجم کم نظر آئے لیکن حقیقت میں فوجی بجٹ2100ارب ہے۔
اس سال 650ارب کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے جو پچھلے سال سے کم ہے اور اس کے زریعے بھی ریاستی افسرشاہی اور ٹھیکیداروں کو نواز جاتاہے اور ایسے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے جس سے سرمایہ دارون کو
فائدہ حاصل ہولیکن اس سے روزگار پیدا ہوتا ہے توا ن حالات میں اس میں بڑے اضافہ لازمی تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
صحت کا بجٹ کورونا وبا کے باوجود40ارب روپے رکھا گیا ہے جب اس وبا کی وجہ سے ہیلتھ نظام کی کمر توڑ دی ہے اوراس رقم کا مطلب ہے حکومت نے محنت کشوں اور غریبوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ تعلیم کا
بجٹ117ارب ہے جو بہت ہی کم ہے۔ اس میں پچھلے سال جو کٹوتی کی گئی تھی اس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن نے حکومت سے جو رقم مانگی تھی وہ بھی حکومت نہیں دے رہی جس کی وجہ سے یونیورسٹیاں پہلے
ہی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرچکی ہیں جس میں مزید اضافہ ہوگا۔اس کا مطلب ہے محنت کش طبقہ کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں گئیں۔
عالمی معاشی بحران کی وجہ سے اس بات کے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ حکومت کے اس سرمایہ دوست بجٹ کے باوجود معیشت میں کوئی بہتری آئے بلکہ اس میں مزید ابتری لے کر آئے گا اور حکمران طبقہ کے پاس اس کا ایک
ہی حل ہے کہ قومی معیشت کے نام پر اس کا بوجھ محنت کش طبقہ پر ڈالا دیا جائے اور سٹیل مل کے محنت کشوں کی نوکریوں کا خاتمہ،ریلوے سے چھانٹیاں اسی کا حصہ ہے اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر نجکاری کا منصوبہ
ہے۔یہ ایک بڑا حملہ ہے اس کا مقابلہ محنت کش طبقہ مل کر جدوجہد کے زریعے ہی کرسکتا ہے
ہندوستان کی انتہائی متشدد بی جے پی حکومت نے مسلم اکثریتی صوبے کے کئی دہائیوں پرانے خود مختاری کے حقوق کو ختم کردیا
Statement of the Revolutionary Communist International Tendency (RCIT), 6 August 2019, www.thecommunists.net
وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت اور ان کی ہندوشاونسٹ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کشمیر کے مظلوم عوام پر ایک بے مثال اور تاریخی حملہ کیا ہے۔ مودی نے 5 اگست کو صدارتی حکم سے ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا۔ اس قانون کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے مستقل رہائشیوں کو خصوصی حقوق دیئے گئے ہیں۔ اس میں بیرونی افراد کو مستقل طور پر آبادکاری ، زمین خریدنے ، مقامی سرکاری ملازمتوں کا انعقاد ، یا خطے میں تعلیمی وظائف جیتنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ، حکومت نے ریاست کو دو وفاقی علاقوں میں تقسیم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ، ایک جموں و کشمیر نے تشکیل دیا ، اور دوسرا لداخ پر مشتمل۔ اب چونکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کردی گئی ہے ، اس سے ہندوستانی شاونسٹ کو قانونی طور پر اس علاقے میں زمین خریدنے اور بیرونی باشندوں کو آباد کرنے اور اکثریتی مسلمان سے اکثریتی ہندو میں اس علاقے کی آبادی کی تبدیلی کی شروعات ہوگی۔
پوری طرح واقف ہونے کے بعد کہ اس فیصلے کو لازمی طور پر کشمیری عوام کی ایک بڑی بغاوت اور بین الاقوامی سطح پر احتجاج کوجلابخشی ، مودی سرکار نے علاقے کے عوام کے خلاف ایک وحشیانہ پیش رو حملہ شروع کیا ہے۔ "اس حکم کے مطابق عوام کی نقل و حرکت نہیں ہوگی اور تمام تعلیمی ادارے بھی بند رہیں گے ،" ریاستی حکومت نے کشمیر کے دارالحکومت سری نگر اور آس پاس کے علاقوں کا حکم دیا۔ "اس آرڈر کے عمل کے دوران کسی بھی قسم کی جلسہ عام یا ریلیوں کے انعقاد پر مکمل پابندی ہوگی۔" نجی موبائل نیٹ ورکس ، انٹرنیٹ خدمات ، اور ٹیلیفون کی لینڈ لائنوں کو کاٹا گیا تھا۔ صرف ایک ہی سرکاری ملکیت میں چلنے والا موبائل نیٹ ورک چل رہا ہے۔ کشمیر کے متعدد نامور سیاستدانوں کو یا تو گرفتار کیا گیا یا پھر انہیں نظربند رکھا گیا۔ نئی دہلی نے بھی پچھلے 10 دنوں میں کم از کم 10،000 اضافی فوجیوں کو تعینات کیا ہے اور مزید 70،000 فوجی روانہ کردیئے گئے ہیں۔
ہندوستانی حکومت کے اعلان کے فورا. ہی بعد میں چند گھنٹوں میں ، اچانک احتجاج شروع ہوگیا۔ اسلام آباد ، حیدرآباد ، کراچی اور پاکستان کے مختلف دیگر شہروں میں ، مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرے اور عوامی جلسے منعقد ہوئے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک لاہور میں ، آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن نے ایک مظاہرے کا انعقاد کیا۔ آزاد جموں و کشمیر - پاکستان کے زیرانتظام کشمیر - 6 اگست کو بھائیوں اور بہنوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ایک عام ہڑتال کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزرائے اعلیٰ ، محبوبہ مفتی اور عمر عبد اللہ نے مودی کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "آج ہندوستانی جمہوریت کا سیاہ ترین دن ہے ... اس سے برصغیر کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔" اس کے چند گھنٹوں بعد ، انہیں ہندوستانی پولیس نے گرفتار کرلیا ۔ بین الاقوامی مظاہروں کی عکاسی کرتے ہوئے ، خاص طور پر مسلم دنیا میں ، اسلامی تعاون تنظیم کے کشمیر کے حوالے سےکا ایک ہنگامی اجلاس 6 اگست کو طلب کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کا کشمیری عوام پر تاریخی حملہ ایک نئی بغاوت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی اور پاکستان کے ساتھ جنگ کا خطرہ پیدا کرے گا۔
انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل ٹینڈرنس (آر سی آئی ٹی) اور اس کے ممبران اور جنوبی ایشیاء کے حامی کشمیری مظلوم عوام کے ساتھ اپنی مکمل اور غیر مشروط یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جن کے وجود پر تاریخی حملہ ہوا ہے۔ کسی کو کسی بھی فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے: مودی نے آرٹیکل 0 37 کو منسوخ کرنے کے لئے یہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی اکثریت والی ہندوستان کی واحد ریاست ، کشمیر کے "اسرائیلی حل" کا آغاز ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کا ہدف یہ ہے کہ کشمیر میں ہندو شاونسٹوں کو منظم طریقے سے آباد کیا جائے اور اس خطے سے مسلم عوام کو بے دخل کیا جائے - تاریخی طور پرفلسطین میں مقامی عرب آبادی کے خلاف صہیونیوں کی پالیسی کی طرح۔ نسلی صفائی کی ایسی ہندو شاونسٹ پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ وہ کشمیری مسلم عوام کو اپنی ہی ریاست میں اقلیت میں تبدیل کریں۔
آر سی آئی ٹی اور اس کے پاکستانی سیکشن نے ہمیشہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو غیر مشروط حمایت کی ہے۔ ان کی زمین کو تین طاقتوں یعنی ہندوستان ، پاکستان اور چین نے تقسیم کیا ہے اور اس پر قبضہ کیا ہے۔ 14 ملین افراد کی اکثریت ہندوستانی قبضے میں رہتی ہے۔ باقی سب سے زیادہ پاکستانی قبضے میں رہتے ہیں۔ کشمیری عوام نے ہمیشہ ایک آزاد ریاست کے لئے جدوجہد کی ہے۔ 1989 میں بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں عوامی بغاوت کے آغاز کے بعد سے ہی ہندوستانی سکیورٹی فورسز کے ذریعہ ایک لاکھ کے قریب کشمیری مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ، تقریبا 10،000 خواتین کے ساتھ بھارتی فوجیوں کے نے اجتماعی عصمت دری کی ہے۔ تازہ ترین اضافے سے قبل ، ہندوستانی ریاست نے پہلے ہی کشمیر میں تقریبا 750،000 فوجی اور پولیس دستے تعینات کر رکھے تھے۔ یہ ایسا علاقہ ہے جس کی آبادی صرف 8 ملین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دس کشمیریوں کے لئے قریب ایک ہندوستانی فوجی موجود ہے!
ہم ہندوستانی محنت کشوں کی تحریک اور بائیں بازو سے مودی سرکار کےانتہا پسند حملے کے خلاف متحرک ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کشمیری عوام کے خلاف حملہ ہندوستان میں تمام لوگوں کے جمہوری حقوق پر حملہ ہے۔ اگر مودی اس جنگ میں جیت جاتے ہیں تو ان کی انتہائی رد عمل پسند حکومت پوری مزدور طبقے اور بھارت کے مظلوموں کے خلاف جدوجہد میں مستحکم ہوگی۔ ہم ہندوستانی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیری مزاحمتی قوتوں کے ذریعہ بھارتی قبضے کے خلاف جائز مسلح حملوں کی صورت میں "دہشت گردی کی مذمت" کے سماجی اور حب الوطنی کے جال میں نہ پڑیں (جیسا کہ پلوامہ حملے کے بعد رواں سال فروری میں ہوا تھا
ہم کشمیری عوام کی مزاحمتی جدوجہد کے لئے ہر طرح سے بھارتی قبضے کے خلاف اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں ، آزادی کی سب سے امید افزا راستہ مزدوروں ، غریبوں اور نوجوانوں کی منظم عوامی جدوجہد ہے۔ کسی کو بھی پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کی بورژوا حکومتوں کی خالی بیانات پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کس طرح انہوں نے سنکیانگ / مشرقی ترکستان میں چینی اسٹالنسٹ سرمایہ دارانہ آمریت کی عالمی سطح پر حمایت کی ہے اور ایغور عوام پر اس کے وحشیانہ ظلم کی تردید کی ہے! متبادل طور پر ، کشمیری عوام کی حمایت میں مزدوروں اور عوامی اجتماعی تنظیموں کی بین الاقوامی یکجہتی تحریک کی تشکیل ضروری ہے۔
جنوبی ایشیاء میں آر سی آئی ٹی اور اس کے ممبران اور حمایتی قومی آزادی کے لئے کشمیری عوام کی جدوجہد کے لئے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ اس طرح کے آزادی اور آزادکشمیر کو مزدوروں اور کسانوں کے زیر اقتدار ایک ملک ہونا چاہئے نہ کہ سرمایہ داروں اور زمینداروں کے ایک چھوٹے سے گروہ کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک آزاد سوشلسٹ کشمیر یعنی ایک آزاد ، متحد اور سرخ کشمیر کے لئے لڑ رہے ہیں! مارکسسٹ کی حیثیت سے ہم اس طرح کے نعرے کو جنوبی ایشیاء کی سوشلسٹ فیڈریشن کے نقطہ نظر کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ہم پورے برصغیر کے انقلابیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کشمیر ، پاکستان ، ہندوستان اور بین الاقوامی سطح پر ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ صرف ایسی پارٹی ہی محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کی آزادی کی جدوجہد کو فتح کی طرف لے جاسکتی ہے
14اگست کو لاہور سے شروع ہونے والے آزادی اور انقلاب مارچ کو عوام کی بڑی تعداد کی طرف سے حمایت ملی،لاکھوں لوگوں نے اس لانگ مارچ میں شرکت اختیار کی اور طویل فاصلہ طے کرکے اسلام آباد پہنچے اور پچھلے 17دنوں سے پرامن دھرنا دے رکھا۔حکومت اور احتجاجیوں کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد انقلابی اور آزادی مارچ نے وزیراعظم ہاوس کے باہر دھرنے کے لیے پیش قدمی کی تو پولیس نے مظاہرین پر بدترین تشدد شروع کردیا جس کے نتیجے میں 1000کے قریب لوگ زخمی ہوے،جبکہ 4کے قریب لوگ شہید ہوئے۔اس کے علاوہ حکومت نے صحافیوں پر بھی بدترین تشدد کیا جس کے نتیجے میں پنجاب اور کراچی میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے اور دھرنے سامنے آئے جس کی وجہ سے حکومت نے پنجاب میں 144نافذ کردی۔جس سے 4سے زائد لوگ ایک جگہ پر اکھٹے نہیں ہوسکتے،اس کا بنیادی مقصد ریاستی تشدد اور دہشت گردی کے خلاف عوامی احتجاج کو روکنا تھا۔لیکن اس کے باوجود پنجاب اور کراچی میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔
اس احتجاج کی ظاہری وجہ تو2013کے الیکشن میں ہونے والی دحندلی اور ماڈل ٹاﺅن میں 12سے زیادہ عوامی تحریک کے ورکرز شہید ہوے اور80کے قریب زخمی ہوئے۔لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارنہ نظام کے بحران کی وجہ سے موجود حکومت بری طرح ناکام ہوگی ہے اور حکمران طبقہ کے اندرونی تضادات میں شدت آگی ہے اور اس وقت ٹکراو جاری ہے،جس کی وجہ سے مڈل کلاس اورلوئیر مدکلاس اور غریب لوگ متحرک ہوگے ہیں۔
عمران خان کے جمہوری مطالبات اور طاہر القادری کا پرو عوام پروگرام کا اصل مقصد اس نظام پر عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے اور ان کا کرپشن کے خاتمے سے مراد ہے کہ حکمران طبقہ میں کیک برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔لیکن اس سے عوام میں ان سے امیدیں پیدا ہوئیں ہے اور دھرنا دے رہے ہیں احتجاج اور جدوجہد کے مختلف طریقوں کو سیکھ رہے ہیں۔
لیکن اس ساری صورتحال میں لیفٹ جمہوریت کے دفاع کے نام پر سرمایہ دارنہ نظام اور نوا ز حکومت کی حمایت کررہے ہیں۔یہ نہایت ہی شرمناک صورتحال ہے،لیکن یہ لیفٹ کی اصلاح پسند نوعیت کو واضح کررہا ہے ۔
ان حالات میں ہم ریاستی دہشت گردی کی مخالفت کررہے ہیں اور جمہوری مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔لیکن یہ جمہوری مطالبات اورپرو عوامی مطالبات سرمایہ دارنہ نظام کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے اور ہماری تحریک کی حمایت کا مقصد نظام کی مخالفت ہے اور مڈل کلاس اور سرمایہ دارنہ قیادت کو عوام میں بے نقاب کرنا ہے۔ یوں ہی ہم سوشلسٹ متبادل تعمیر کرسکتے ہیں اور اگر کوئی فوجی آمریت بھی آئے تو اس کی مزاحمت کی جاسکتی ہے
اسرائیل کازمینی حملہ شروع ،غزہ کی حفاظت کرو،اسرائیل کی جنگ کو شکست دو,فلسطینی مزاحمت کی حمایت کرو، اسرائیل .کے بائیکاٹ کی عالمی کمپین تعمیر کرو، اسرائیل کی حامی حکومتیں مردآ باد ایک آزاد سوشلسٹ فلسطین زندہ آباد
اسرائیل کی زمینی کارروائی فلسطینی عوام کے خلاف دہشت گردی کی مہم میں ایک اور اضافہ ہے. اب تک، غزہ کی پٹی میں کم از کم 604 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں اور 3700سے زائد زخمی ہو چکے ہیں. یہ دو مذہبی یا قومی گروہوں کے درمیان ایک تنازعہ نہیں ہے. بلکہ یہ اسرائیل کی نسل پرست رنگبھید ریاست کی طرف سے انتہائی رجعتی جنگ ہے جبکہ فلسطینی عوام کی جانب سے ظلم و ستم کے خلاف دفاع کی جنگ ۔ ڈیموکریٹس اور سوشلسٹس کوپورے جوش و جذبے سے بہادر فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اسرائیل کی شکست کے لئے جدوجہد منظم کرنی چاہیے۔.
. ہم فلسطین کے لیے یکجہتی تحریک کاخیر مقدم کرتے ہیں میں اور اس میں بھرپور طور پر شامل ہیں. ہم ترکی میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کاجنھوں نے اسرائیلی سفارت خانے پر حملہ کیا،ان کو مبارک باد دیتے ہیں اسی طرح کی جرات مند تحریک نومبر 2012 میں آخری غزہ جنگ کے دوران مصری عوام کی طرف سے شروع کی گئی تھی۔ہم فرانس کی سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے فلسطین کی حمایت میں19جولائی کو کیے جانے والے مظاہروں پر پابندی اورکیمونسٹ پارٹی کی طرف سے اس حکومتی اقدام کی حمایت کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
ہم محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کی عالمی تحریک کی تعمیر کی اپیل کرتے ہیں. محنت کشوںکی تنظیموں اور فلسطین کے لئے عالمی یکجہتی کی مہم میں شامل (ٹریڈ یونینوں، جماعتوں وغیرہ) اسرائیل کے ساتھ تمام تجارتی سرگرمیوں کے خلاف بائیکاٹ کے لیے جدوجہد کرئیںاور صہیونی اداروں کے ساتھ تمام رابطوں کا بائیکاٹ کریں-نسل پرست حکومت کے خلاف ترقی پسند یہودیوں کے ساتھ مل کر جدوجہد منظم کرنی چاہے اور ان کو اسرائیل کے خلاف متحرک ہونے کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہے. بڑے پیمانے پر اظہار یکجہتی کی تحریک کو دنیا بھر میں اسرائیل کے سفارت خانوں کو بند کرنے کے لیے عوامی تحریک منظم کرنی چاہے.۔ اسی طرح یکجہتی تحریک کوسامراجی امریکہ کی طرف سے اسرائیل کے لئے فوجی اور مالی امداد کو ختم کروانے کو منظم کرنا چاہے۔
. ہم محمود عباس اور بورڑوا قوم پرست الفتح پارٹی کی رجعتی فلسطینی انتظامیہ کی مذمت کرتے ہیں. فلسطینی انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ تعاون اور فلسطینی عوام کے خلاف اس کے ایجنٹ کے طور پر کام کرہی ہےہم حماس اور اسلامی جہاد کی اسرائیل کے مزاحمت کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ہم ان کے بورژوا اسلامی ایجنڈے کو مسترد کرتے ہیں. اسرائیلی فوج اور مسلح آباد کاروں کے خلاف مزاحمت ٹھیک ہے، لیکن غیر مسلح عام شہریوں کو ہدف بنانے کی فوجی حکمت عملی کی مخالفت کرتے ہیں۔ فلسطینی مزدوروں اور غریب قومی آزادی کے لئے جنگ کے ساتھ ،ایک انقلابی محنت کشوں پارٹی کی تعمیر کرئے جوسوشلسٹ انقلاب کے لئے عالمی جدوجہد کرئے۔
ترکی ساتھ ساتھعرب ممالک میں بڑے پیمانے پر عالمی یکجہتی کی تحریک مقامی حکومتوں کی مذمت کرنا چاہئے جو پوشیدہ یا کھلے عام اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں. خاص طور پر، ہم نے غزہ کے لوگوں کے لئے زندگی برقرار رکھنے والی سرنگوں کی جنرل سی سی کی فوجی آمریت کی طرف سے بڑے پیمانے پر تباہی کی مذمت کرتے ہیں اردگان کی حکومت کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ گہرئے اقتصادی تعلقات کی مذمت کرتے ہیں. عالمی یکجہتی تحریک اسرائیل کے ساتھ تمام تعلقات کے خاتمے اور اسرائیلی سفارت خانوں کو بند کرنے کے لئے ان کی حکومتوں کو مجبور کرئے اور مصر پر رفاہ کا باڈر کھولنے کے دباﺅ ڈالیں.
. عالمی یکجہتی تحریک الا سی سی اور الاسد کی آمریت کے خلاف مصر اور شام میں جاری مقبول مزاحمت کے ساتھ صیہونیت کے خلاف جدوجہد کو مشترک کرئے. ہم ان حکومتوں کے ساتھ دونوں ممالک میں "کمیونسٹ" جماعتوں کے تعاون کی مذمت کی.
. ہم صہونیت کے حامیوںاور اصلاح پسندوں کی طرف سے دوریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں،جس کی فتح کی قیادت کے ساتھ،سٹالنسٹ،سوشل ڈیموکریٹس اور سنٹرایسٹ پوری دنیا میں اور اسرائیل میں حمایت کرتے ہیں۔یہ حل فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو مسترد کرتا ہے۔ اسی طرح،مغربی کنارے اور غزہ میں ایک فلسطینی ریاست حقیقت میں بہت امیر اور زیادہ طاقتور اسرائیل پراس کا انحصارکی وجہ سے اس کی حیثیت ایک نیم نوآبادی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ہم ایک فلسطینی ریاست کے حامی ہیں جس میں فلسطینی لازمی طور پر اکثریت میں ہیں ،تمام یہودیوں کو جب تک وہ فلسطینی اکثریت کے جمہوری حقوق کو قبول کریں تو ایسی حالت میں ان کے رہنے خیر مقدم کیا جائے گا. مختصر طور پرہم اسرائیل کا خاتمہ اور ایک ڈیموکریٹک فلسطینی، کثیر القومی اور سوشلسٹ اور Fallahin کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
غزہ کا دفاع زندہ باد،اسرائیل کی جنگ مردباد۔ایک آزاد اور سوشلسٹ فلسطین کے لیے جدوجہد
پاکستان کاحکمران طبقہ محنت کشوںپر حملہ آور ہے.یہIMF،اور ورلڈ بنک کے حکم اور معیشت کی بحالی کے نام پربدترین جبر اور استحصال کررہے ہیں ۔ پی ٹی ایل ،کے ایس سی ،بنکوںاور دیگر اداروں کی نجکاری اور ہزاروں مزدورں کی نوکریوں کا خاتمہ اس سلسلے کی کڑی ہے . ینگ ڈاکٹرز ، اساتذہ ،لیڈی ہیلتھ ورکرزاور اب نرسز پربنیادی ٹریڈیونین کے حقوق کی جدوجہد پر بدترین حملہ ،جس میںبڑی تعدادمیں نرسز زخمی ہوئیں ،جس میںسے دو کی حالت نازک ہے اور ان میں ایک حاملہ بھی ہے۔یہ اس نظام کی بڑھتی ہوئی وحشت اور بربریت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
حکمران نجکاری اورلاکھو ںمحنت کشوں کو نوکریوں سے نکالنے کے منصوبے بناچکے ہیں جواس کی بنیادی وجہ سرمایہ داری نظام کابحران ہے جو خود سرمایہ دار طبقہ کا پیدا کردا ہے . یہ واضح ہے کے یہ عوام کی کی بجائے سرمایہ داروں کے منافعوں میںاضافے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان حالات میں محنت کشوں کی زندگی بدترین ز غربت،بیروزگاری اور افلاس کی دلدل می دھنستی چلی جا رہی ہے .موجود حکومت ر سرمایہ داروں اور تاجروں کی نمائندہ اور یہ انکے مفادات کی ترجمان ہے
ینگ نرسز جس جرات اور بہادری سے اپنے حقوق کی جدوجہد کررہی ہیں . یہ مزدور طبقے کی قوت کا اظہار ہے،یہ ہڑتال اور دھرنا حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دئے گا.یہ جدوجہد واضح کرتی ہے کہ سرمایہ دار طبقہ کے برعکس یہمحنت کش ہے جو اس نظام کو چل رہا ہے۔ محنت کش اگرس نظام کو چلا سکتے ہیں تویہی اس کو بند بھی کرسکتے ہیں اور ایک نئے نظام کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیںجو کے استحصال و جبر سے پاک ہو۔. دیگر اداروں کی طرح صحت کے شعبہ کو بھی سرمایا دارانہ منافع کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے یہ جدوجہد صرف نرسز کی ہی نہیں بلکہ اسے محنت کشوںکے وسیع تر حصوں سے جڑنے کی ضرورت ہے
نرسز کی جدوجہدخواتین کی طاقت اور ایک نئی مزدور تحریک کے ابھرنے کی بنیاد بن سکتی ہے اسکا ساتھ دینا لیفٹ کا فرض بنتا ہے. ہم ینگ نرسز کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتے ہیں اورانکے مطالبات کی لڑائی میں ہر سطح پر انکے ساتھ ہیں. اس جدوجہدنے حکومت کی اصلیت ظاہر کردی ہے.۔اس کے ساتھ یہ جدوجہد محنت کش طبقہ میں بڑھتے ہوئے ایک نئے عظم اور حوصلے کو ظاہر کررہے ہیں۔وہ واضح طور پر حکمران طبقہ کے حل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
طالبان سے مذاکرات اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا سوال ،اس وقت شدت کے ساتھ میڈیا میں سامنے آرہا ہے۔ہر طرف یہی پکار ہے کہ یہ ہماری جنگ ہے ۔اس میں ہمارے لوگ مارے جارہے ہیں۔اگر طالبان کی دہشت گردی جاری رہی تو مذاکرت کیسے ممکن ہوسکتے ہیں اور کیا طالبان سے امن ممکن ہے یہ تو موت اورتباہی کے پیغامبر ہیں۔جو اب تک ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قتلِ عام میں ملوث ہیں۔
یہ سب وہی زبان ہے جو دہشت مخالف جنگ کا جوازہے۔جس سے ریاست کے ایک حصے نے پچھلے عرصے میں چشم پوشی کر رکھی تھی اور مذاکرات کا واویلہ کیا جارہا تھا۔لیکن اس کے ساتھ آپریشن بھی جاری تھا۔لیکن اب امریکہ کی طرف1.6ملین کی امداد اور وزیراعظم نوازشریف کا دورہ امریکہ اس بات کا واضح اظہار تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے بیانات اصل میں ریاستی آپریشن کے خاتمے کی بجائے اس کو جاری رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔یہ ظاہر کررہا ہے کہ امریکہ اوریاست کے درمیان جنم لینے والے’’ تضادات‘‘سمجھوتے میں بدل رہے ہیں۔میر علی پر ہونے والی بمباری طرف اشارہ کررہی ہے۔
جہاں ایک فوجی چوکی پر ہونے والے حملے،جس میں پانچ فوجیوں کی ہلاکت ہوئی اور ان کی میتوں لیجانے والے قافلہ پر ہونے والے حملے میں تین فوجی زخمی ہوگے تھے۔اس کے بعد میر علی پر طالبان کے نام پر ہونے والے آپریشن میں 80لوگ مارے گے اور بے شمار زخمی ہوئے۔لیکن علاقے میں کرفیو کی وجہ سے لوگ مردوں اور زخمیوں کو اٹھا بھی نہ سکے۔مارے جانے والے افراد کے جنازوں کے وقت حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی ہوئی،اس صورتحال کی علاقے کے ایم این اے نذیر خان نے بھی تصدیق کی کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر بے گناہ اورعام شہری تھے۔
اس آپریشن نے عام آبادی میں حکومت کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ کیا ہے۔طالبان کے نام پر عام لوگ مر رہے ہیں ۔ہر جنگ کی طرح دہشت مخالف جنگ میں بھی یہی ہورہا ہے۔
کراچی میں چوہدری اسلم کی بم دھماکے میں ہلاکت اور ہنگو میں طالب علم اعتزاز کی خودکش حملہ آور کے خلاف بہادری کو حکمران طبقہ جنگ کے طبل کے طور پر بجا رہا ہے کہ جنگ سرمایہ داری میں ایک مافع بخش کاروبار ہے۔جس کا ان کو طویل اندازہ ہے۔لیکن اس جنگ نے ایسے حالات کو بھی جنم دے دیا ہے جس میں اب سب کچھ ریاست کے ہاتھ میں بھی نہیں ہے۔
اعتزاز تو خیر حکمران طبقہ کی ناکامی اور سوال کو سامنے لارہا ہے کہ عام آدمی طاقتور ہے اور اگر وہ کھڑا ہو جائے تو خودکش حملے کے ہدف کو ناکام بھی بنا سکتا ہے۔یعنی ریاست کے بغیر بھی دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور اس کو شکست دی جاسکتی۔یعنی یہ ریاست کے وحشیانہ آپریشن پر سوال اٹھاتا ہے اور یہ ظاہر کرتا کہ عوام کی متحرک قوت ہر قسم کے جبر اوراستحصال کا خاتمہ کرسکتی ہے۔یہ صورتحال نیولبرل ریاست کے لیے بہت خطرناک ہے۔جس کی نجکاری ،سبسڈی میں خاتمے اور ترقیاتی منصوبجات میں رقم کی کٹوتیوں اور ٹیکس میں اضافہ نے مہنگائی ،بے روزگاری،غربت اور محرومی میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے ۔ایسے میں اعتزاز طالبان سے زیادہ خود اس ریاست کے لیے خطر بن جاتا ہے۔جو پہلے ہی طالبان کی طرح کے مزید گرپوں کو جنم نہ دئیں ۔جو فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔لیکن یہ سب ہر صورت میں رجعتی ہونے کی بجائے۔ایک نئی پیش رفت بھی بن سکتا ہے اور یہ حکمران طبقہ کے لیے ایک بُرے سپنے کی طرح ہے
ملالہ جوائیہ کے بقول امریکہ کی افغانستان میں آمد سے ہماری طالبان کے خلاف جدوجہد مشکل ہوگی ہے اور طالبان آزادی کے متوالے بن کر سامنے آرہے ہیں۔
جبکہ چوہدری اسلم کا کردار تو کسی سے ڈھکہ چھپ نہیں،اس کو میڈیا اور حکمران طبقہ کا ہر حصہ ہیرو کے طور پر پیش کر رہا ہے۔جبکہ کراچی والے جانتے ہیں کہ یہ کن کا ہیرو تھا اور ماروئے عدالت ہلاکتوں اور نجی ٹارچرسیل کا بادشاہ تھا۔اس شہر میں یہ ریاست اور حکمران طبقہ کے مخالفین اور ان کے ساتھ تضاد میں آنے والوں کا خاتمہ کردیتا۔اس وجہ سے اس کی طاقت اور اختیار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔اوراسی طاقت اور اختیارنے جنگ کے کالم نگار حسن مجتبی کے بقول ارب پتی پولیس افسران کو جنم دیا۔
یہ سب کچھ ریاست سے پوشید نہیں ہے۔لیکن یہاں اسلم چوہدری اور اعتزاز،حکمران طبقہ کی جنگ کے لیے ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر سامنے آئیں ہیں۔اسی لیے ان کو گاڈر آف آنر سے لے کر پھولوں کی چادر پیش کی جارہی ہے۔
لیکن خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں آپریشنز کا تجربہ یہ واضح کرتا ہے کہ آپریشن کسی حل کی بجائے ،عوام کے لیے بیدخلی،موت اور ذلت کے سواء کچھ نہیں لاتا۔پھر چاہیے طالبان شکست کھا جائیں اور اچھے ہونے کی بنیاد پر کچھ بچ بھی جائیں۔لیکن عام لوگوں کی زندگی میں ذلت،بے بسی،خوف،مجبوری اور مسخ شدہ لاشوں کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔
اس لیے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ لیفٹ جنگ مخالف تحریک تعمیر کرئے۔جو خطے سے امریکی سامراج کی مکمل واپسی،ڈروان حملے اور جنگ کے خاتمے کو بنیاد بنائے۔یوں ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ سامراج اور ریاست مخالف تحریک تعمیر کرتے ہوئے لیفٹ طالبان کا مقابلے میں متبادل لیڈر شپ پیش کرسکے۔
Article on Privatization in Pakistan in Urdu, published by the Revolutionary Workers Organization, Pakistani Section of the RCIT, www.thecommunists.net
نجکاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محنتکشوںپرحکمرانطبقہکابڑاحملہ
مسلملیگنوازکیحکومتنےاعلانکیاہےکہوہ 31 سرکاریاداروںکینجکاریکےعمل 8سے 10ماہمیںمکملکردےگی۔جسکامطلبہےکہاگلےسالجولائیتکپاکستانسٹیل،پیآئیاے،پاکستانریلویز،لاہورالیکٹرکسپلائیکمپنی،سٹیٹلائفانشورنسکارپوریشن،ہاو ¿سبلڈنگفنانسکارپوریشن،سوئیسدرنگیسلمیٹڈ،سوئینادرنگیسپائپلائن،پاکستانسٹیٹآئل،آئلاینڈگیسڈویلپمنٹکمپنیلمیٹڈ،پاکستانپیٹرولیملمیٹڈ،ماڑیگیس،حیدرآبادالیکٹرکسپلائیکمپنی،فیصلآبادالیکٹرکسپلائیکمپنی،مظفرگڑھپاورپلانٹ،جامشوروپاورکمپنی،پاسکواوردیگرادارےنجیملکیتمیںچلےجائیںگئیں۔جبکہریلوئے،اسٹیلملاورپیآئیاےکینجکاریاسیسالمیںکردیجائےگی۔
اسسےسرمایہدارطبقہبہتخوشہےاوروہاسکومعیشتکےتماممسائلکےحلکےطورپرپیشکررہاہے۔کہاجارہاہےبزنسکرناحکومتکاکامنہیںہے،یہنجیشعبہکاکامہےاسسےکاروباربڑھےکااوربیرونیسرمایہکاریآئےگیجسسےملکیمعیشتبہترہوگیاوراسسےعامآدمیکوفائدہپہنچےگا۔لیکنحقیقتتویہہےکہیہنجکاریاسیصورتمیںپرکششہوسکتیہےاگراناداروںکوانتہائیکمقیمتپرفروختکردیاجائےاوراناداروںمیںٹریڈیونینزیاتوہوںہینہیںیاانکودبادیاجائے۔مالکانکوسرمایہباہرلیجانےکیاورنوکریںختمکرنےکیمکملاجازاتہو۔
نجکاریکابنیادیمقصدعوامکےمعیارزندگیمیںبہترینہیںہے،بلکہاسکومقصدسرمایہداروںکونوازناہے۔پاکستانمیںنجکاریکایہپہلاحملہنہیںہے۔اسسےپہلےبھیبڑئےپیمانےپرنجکاریکیگیاوراسوقتبھیمقصدمعیشتکیبہتریاورقرضوںکاخاتمہتھامگرآجنہصرفمعاشیبحرانشدیدہےبلکہ ±قرضوںمیںشدیداضافہہواہے۔لیکناسسےسرمایہداروںکیطاقتاورسرمایہمیںبےتحاشہاضافہہواہے۔
جبکہدوسریطرفآجتکتقریبا500000سےزائدنوکریوںکاخاتمہ،مہنگائیاورغربتمیںبےتحاشہاضافہہواہے۔اورموجودحملہسےبھیکمازکم 200000نوکریوںکاخاتمہہوجائےاوریہاپنےساتھمہنگائیکانیاطوفانلےکرآئےگا۔
اسوقتجہاںحکومتنےایکطرفنجکاریکااعلانکیاہےتودوسریطرفچندمنسٹراورحکمرانطبقہکےاہمافراداسکیمخالفتکرتےنظرآتےہیں۔یہنجکاریکےخلافنہیںہیں،ہاںالبتہیہمحنتکشوںمیںجدوجہدکیبجائےاپنےطرفدیکھنےکارویہپیداکررہےہیں۔یوںیہتحریککےراستےمیںرکاوٹہیننہکہنجکاریکے۔پیپلزپارٹیاوردیگرجماعتوںکینجکاریکیمخالفتحقیقتمیںایکجھوٹکےعلاوہکچھنہیںہے۔
انحالاتمیںلیفٹاورٹریڈیونینزکییہذمہداریبنتیہےکہوہمظاہروں،گھیراواورہرتالکےذریعہنجکاریمخالفتحریککوتعمیرکرئیں۔اسکےلیےاداروںمیںہرتالیکمٹیاںتشکیلدیجائیںاورمختلفسیکٹرزکےمحنتکشوںکیجدوجہدکومنظمکیاجائےاوراسکوبڑئےپیمانےپرپھلایاجائے۔
نجکاریکافوریخاتمہکرکے،انادروںکومحنتکشوںکےجمہوریکنٹرولمیںدیاجائے۔
نجکاریکمیشنکاخاتمہکیاجائے۔
بےروزگاریالاونسدیاجائےاورکمازکمتنخواہ 30000کیجائے۔
سرمایہداروںپرٹیکسمیںاضافہکرکےپبلکسروسزکوبڑئےپیمانےپرسبسڈیدیجائ
نادرا ایمپلائز یونین نے اپنے مطالبات کے حق میںملک بھر کے شہروںلاہور،گوجرانوالہ،فیصل آباد، کراچی، حیدرآباد، سکھر، پشاور اور کوئٹہ پریس کلبوںکے سامنے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ لگے۔ یہ کیمپ فروری کے پہلے ہفتہ جاری رہے۔مختلف پریس کلب کے سامنے نادرا یونین کے مرکزی اور مقامی قیادت نے نادر کے دیگر محنت کشوں کے ساتھ ان نے احتجاجی کیمپوںمیں شریک ہوئے۔ نادرا کے محنت کشوںنے متفقہ طور پر یک نکاتی ایجنڈا پیش کیا:مکمل سکیل بمعہ سروس سٹرکچر، میڈیکل پینل، اپ گریڈایشن، تمام محنت کشوںکو ہاو¿س رینٹ اور ہاو¿سنگ سوسائٹی کی سہولت فراہم کی جائے اور تمام کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجزمحنت کشوں کو مستقل کیا جائے۔
یونین کی مرکزی قیادت نے شرکا سے مختلف بھوک ہڑتالی کیمپوں میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نادر ا کی ترقی کی وجہ محنت کش ہیں جنہوں نے دن رات محنت کر کے ادارے کو اس مقام پر پہنچایا ہے لیکن آج یہی محنت کش اپنے بنیادی حقو ق سے محروم ہیں۔انہیں بنیادی سکیل نہیں دیا گیا،ہماراکوئی سکیل ہے،ہمارے پاس کوئی مرکزی سروس سٹرکچر نہیں ہے،ہمیں نادرا کیبیورکریسی یہ بھی نہیں بتاتی ہے کہ ہم وفاقی حکومت کے تحت کام کرتے ہیں یاصوبائی حکومتوں کے ۔ اگرہم وفاقی حکومت کے تحت کام کرتے ہیں تو کیا ہم اور یگر وفاقی اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے برابر ہیں؟ کیا ہمارے بنیادی سکیل ایک جیسے ہیں؟ دس بارہ سال سے کام کرنے والے محنت کشوںکو آج تک کوئی اپ گرایڈایشن یاترقی نہیں دی گئی۔ کیا زندگی بھر یوں ہی کام کرتے رہیں گئیں؟
انہوں نے کہا کہ ہم نے فروری میں پورے ملک میں احتجاجی کیمپ لگے اگر ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو مارچ میں کراچی سے لے کر اسلام آباد تک ٹرین مارچ کریں گے اور 9 مارچ کو اسلام آباد نادراہیڈکواٹر کے سامنے احتجاجی دھرنا دیں گے۔ اگر پھر بھی ہمار ے مطالبات نہ مانے گے تو اپریل میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میںہڑتال کریں گے اور اس وقت تک ہماری ہڑتال جاری رہے گا جب تک ہمارے تمام مطالبات پورے نہ ہوں۔ ان احتجاجی محنت کشوں سے مختلف ٹریڈیونینز نے اظہار یکجہتی کیا اور ان کی جدوجہد کو اپنی تحریک قرار دیااور ہر سطح تعاون کا یقین دلایا۔یہ جدوجہد ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جہاں حکمران طبقہ جنگ کا طبل بجا رکھ ہے اور اس کے ساتھ محنت کشوں پر بڑے حملے کا آغاز کررہا ہے۔ان حالات میں ٹریڈیونینز اور لیفٹ کے گرپوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ مل کر مشترکہ جدوجہد کا لائحہ عمل ترتیب دیں اور محنت کشوں کی مختلف جدوجہد کو اکھٹی کریں۔
انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل رحجان (RCIT) کا بیان
-1. 7 جنوری کو اسلام پسندوں نے جریدے چارلی Hebdo کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کر کے مردوں اور عورتوں کو الگ کرنے کے بعد ایڈیٹر ان چیف، صحافیوں، اور پولیس اہلکاروں سمیت 12 افرادکو ہلاک کردیا۔ . اگلے دن ایک اورشخص نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کرکے دو افراد ہلاک کردیا ایک ہی وقت میں بہت سی مساجدپر فائرنگ اور بموں سے حملہ کیا گیا. ملک بھر میں 88.000 پولیس کو جہادی عسکریت پسندوںکو پکڑنے کے لیے متحرک کیا گیا ہے. کمیونسٹ پارٹی اور فرنٹ ڈی بددی گوچے اور بورژوا میڈیا کی حمایت سے سوشل ڈیموکریٹ اور لبرل ہالنڈے کی حکومت،، ہنگامی حالت کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہی ہے. اس طرح سے وہ سامراجی پالیسی کے لئے حمایت کو برقراررکھنے کے لیے چارلی Hebdo پر ہونے والے خلاف حملے کو استعمال کررہے ہیں۔
-2ا نقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل رحجان جریدے چارلی Hebdo کے خلاف انفرادی دہشت گرد ی کے حملوں کی مخالفت کرتا ہے. لیکن ہم اس جریدے اور اس کی سرکردہ شخصیات کے مواقف کی حمایت نہیں کرتے۔.کئی سالوں سے چارلی Hebdo مسلمانوں اوران کے نبی کے خلاف نفرت اور ذلت آمیز کارٹونوں کی اشاعت کے ذریعے سامراجی یلغار کی حمایت کررہا ہے. ان افعال کے ساتھ یہ 2001 کے بعد سے، لاکھوں باشندوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے افغانستان کے حملے اور قبضے میں فرانس کی شمولیت کی حمایت کرتا رہا اور اسے نظریاتی جواز فراہم کیا۔اخبار فرانسسی سامراج کے مالی اور جمہوریہ وسطی میں حملوں کے ساتھ ساتھ عراق اور شام میں اوباما کی تازہ ترین جنگی یلغارکی بھی حمایت کررہا ہے۔مختصر چارلی Hebdo مکمل طور پر مغربی لبرل ازم کی مکمل اور تکبرانہ سامراج نو ازی اور رد انقلابی کی ایک مثال ہے۔ہم لبرل فریب کو مسترد کرتے ہیں، جو کہتے ہیںچارلی Hebdo پر حملہ "آزاد پریس" اور مغرب کی لبرل اقدارکے خلاف ایک حملہ تھا.اس میں کچھ" ترقی پسندی یا آزادی سے محبت نہیںجو دوسروں کو خوفزدہ، قبضے، نسل پرستی اور لوگوں کی ذلت کو برقرار رکھنے میں مدد دے۔
3. ہر سوشلسٹوں جریدے چارلی Hebdo کے خلاف حملے کی مخالفت کرتا ہے یہ فوجی اہداف کے خلاف نہیںتھا یہ مکمل طور پر نقصان دے ہے۔یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اکھٹی جدوجہد کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔یہ سامراج اور ریاست کو یہ مواقع فراہم کر تا ہے کہ وہ ان حملوں کو سامراجی قبضوں،نسل پرستی اور تارکین وطن مسلمانوں اور ترقی پسندوں کے جمہوی جمہوری حقوق کے خاتمے کے اور ان کی نگرانی کے لیے استعمال کرئے۔
4۔ ہم سوشلسٹوں کا کام اب فرانس میں سامراج کی حمایت میں ہونے والی موبلائزیشن کی مخالفت کو برقرار رکھنے. ہے سوشلسٹ کو مسلم تارکین وطن کا دفاع کرنے اور ہالنڈے کی حکومت اور یورپی یونین کی سامراجی جنگ کی یلغار کے خلاف متحرک ہونا چاہئے۔. سوشلسٹوں کو ا واضح کرنا چاہیے کہ بنیادی دشمن رجعتی اسلام پسند نہیں بلکہ فرانسیسی سامراج اور ہالنڈے کی حکومت ہے۔ یہ فرانسیسی سامراجیت ہے جو افغانستان، عراق، شام، مالی کو موت اور تباہی میں دھکیلتی ہے . یہ اس وقت فرانسیسی سامراج ہے جو لیبیا کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کرنے کی دھمکی دے رہا ہے. یہ فرانسیسی سامراج ہے جو مسلمان مہاجرین پر جبر اوانتہائی استحصال کے حالات پیدا کرتا ہے ،. یہ اسکولوں میں حجاب پہننے سے مسلمان لڑکیوں کو منع اور عوام میں برقع پہننے کو کالعدم قرار دیتا ہے۔. یہ اس کے علاوہ 2014. کے موسم گرما کے دوران جب غزہ میں سے زیاد300 2فلسطینیوں کو ذبح کیا گیا تھا ، ہالنڈے حکومت اسرائیلی رنگبھید ریاست کے ساتھ قریبی سیاسی اور کاروباری روابط برقرار رکھتی رہی ہے اور اسرائیل نواز ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطنیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں کو کالعدم قرار دے دیا یہ آج کے یورپ میں جبر کی ایک منفرد رجعتی مثال ہے۔. مختصر ان لبرلز کو جو اپنے بال نوچ رہے ہیں ان کو حیران نہیں ہونا چاہیے
کہ فرانسیسی ریاست اور میڈیا اسٹیبلشمنٹ ، لاکھوں لوگوں کے لیے نفرت علامت ہے۔
5. ۔ایک اہم کام اب تعصب پر مبنی حملوں کے خلاف، مساجد اورتارکین وطن اضلاع کادفاع کرنے کے لئے اپنے دفاع کومنظم کرنے کیضرورت ہے. یہ مسلم مخالف تعصب کے خلاف ایک وسیع متحدہ محاذ کی تعمیر بھی نہایت ہی ضروری ہے. آخر میں، یہ مشرق وسطی اور افریقہ میں سامراجی جنگ کے خلاف مہم اور ایک مضبوط جنگ مخالف تحریک کی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔.
6. RCIT کیمونسٹ پارٹی اور دیگر نام نہاد لیفٹ کے گرپوں کی شدید مذمت کرتے ہیں جو ہالنڈے کی قومی اتحاد کی پالیسی کی حمایت کررہی ہے۔
این پی اے (جن کی قیادت Mandelite "چوتھی انٹرنیشنل کر رہی ہے) اور LO نے 7 جنوری کو اپنے بیانات میںہالنڈے کی قومی اتحاد کی رجعتی اپیل کی حمایت نہیں کی لیکن چارلی Hebdo پر حملے کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ۔ لیکن اس کے ساتھ ایک لفظ بھی اس واقع اور مسلم قوموں کے خلاف فرانس کی سامراجی جنگوں، یا اس کے مہاجرین پر ظلم اور انتہائی استحصال کے درمیانتعلق کا کوئی ذکر کرنہیں کیا۔اپنے بیانات میں ان سنٹراسٹ گروپوں نے چارلی Hebdo اور اس کے صحافیوں کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا حوالہ دیتے بورژوا لبرلزکے ساتھ اپنی وابستگی کو ظاہر کر.دیا
7۔یہ سب حیرت انگیز نہیں ہے آخرالذکرPCF 2001 ءمیں فرانسیسی حکومت کا حصہ تھی جب افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے فوجیوں کو بھیجاگیا اور پارٹی نے افریقہ میں فرانس کی فوجی مہم جوئی حمایتکی تھی۔ سنٹراسٹ اور موقع پرست این پی اے اورLO مزاحمت کی قوتوں کا ساتھ دینے میں ناکام رہی.جو قبضے کے خلاف لڑ رہے تھے انہوں نے یہ بھی فرانسیسی اسکولوں میں حجاب پہننے کو غیرقانونی قرار دینے کی حکومت کی پالیسی کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی 2005 میںامیگرنٹس کی جدوجہد کی حمایت کی تھی.
.8. اس میں کوئی تعجب نہیں کہ فرانس میں بڑی تعداد میں مسلمان تارکین وطن ان سنٹراسٹ اوراصلاح پسند جماعتوں کو اپنے جمہوری حقوق کے محافظ کے طور پر نہیں دیکھتے ۔ ان وجوہات کی وجہ مسلم تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک ریڈیکل متبادل کے لیے اسلامی پسندوںکی طرف متوجہ ہورہی ہے. RCIT اسے مسلمان تارکین وطن کے لئے تباہ کن اور رجعتی تحریک کو سمجھتے ہیں۔آگے برھنے کا راستہ مذہبی بنیادوں پر علیحدگی میں نہیں ہے ،بلکہ فرانس اور یورپ کے سفیدفام،تارکین وطن محنت کشوںاور نوجوانوں کی مشترکہ اور متحدہ جدوجہد میں ہے۔. سامراجی جنگوں، غیر جمہوری قوانین، اور پولیس جبر کے خلاف ایک جدوجہد کے ذریعے ہی عالمی محنت کش طبقے میں اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے. صرف اس طرح ایک نقطہ نظر کے ساتھ سوشلسٹ رجعتی اسلام پسندوں کے اثر و رسوخ کو شکست دینے کے قابل اور مسلمان تارکین وطن کا دل جیت سکتے ہیں۔ اس طرح کا نقطہ نظر رکھنے والے سوشلسٹوں کو RCIT اپیل کرتی ہے کہ عالمی انقلابی جماعتیں تعمیر کرنے کے لئے مل کر جدوجہد کریںتاکہ محنت کش طبقے کے سرمایہ دارانہ نظام، تختہ الٹنے سکے،جو ان تمام رجعتی پیش رفت کی وجہ ہے۔
انٹرنیشنل سیکرٹریٹ آفRCIT
پشاور میں آرمی پبلک سکول میں طالبان کے حملے میں150سے زائد لوگ ہلاک ہوئے،جن میں سے 133 بچے تھے۔دہشت گردی کے اس واقع نے پاکستانی عوام کو سوگوارکردیا اور دنیا میں بھر کے عوام نے اس پرغم کا اظہار کیا۔میڈیا طالبان کی بربریت کو سامنے لے کر آیااوراسے قوم کے بچوں پر حملہ قرار دیاجس کا انتقام ضروری ہے۔اس طرح اس ریاست سوال کرنے کے برعکس ریاست کو ہی حل کے طور پر پیش جارہا ہے ۔حکمران طبقہ کے مختلف حصوں میں ٹکراو جاری تھا جس کو پشاور سانحہ متحدہ کرگیا۔تحریک انصاف نے تحریک کے خاتمے اور ملکر لائحہ عمل تشکیل دینے کا اعلان کردیا ہے۔جس کا نتیجہ نیشنل ایکشن پلان اور ایمرجنسی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ریاست واقع اور اتحاد کو آپریشن کی شدت میں تیزی لانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔
معصوم بچوں اور ان کے دکھی ماں باپ کومیڈیا نے جس طرح دکھایا،اس کا مقصد آپریشن کو واحد حل کے طور پر پیش کرنا تھاجس میں حکمران کامیاب رہے ہیں۔دہشت گردی کے اس واقع کو اس طرح پیش کیا جارہا ہے جیسے اس کا سامراج اور ریاست کی پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آپریشن میں تیزی لائی جارہی ہے،اس کو واحد حل اور عوام میں نسل پرستی اور جنگی جنون پیدا کیا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ا ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے ریاست کے لیے یہ آسان ہوگیا ہے کہ اسے عوامی جنگ بناکر پیش کرے،،میڈیا ایسی فضاء بنارہا جس میں عوام جنگ کا مطالبہ کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ ریاست کوعوام کا دفاع ،حامی بناکر پیش کیا جارہا ہے،جو طالبان کی بربریت سے عوام کو بچا سکتی ہے۔لیکن یہ اس ریاست کی سفاکیت سامنے نہیں لاتے جہاں سینکڑوں ریاستی آپریشنوں سے ہلاک اوربچے ادویات اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔
ریاست کا مواقف ہے کہ اب اچھے اور برے طالبان میں تمیزختم ہوگی ہے، ہر دفعہ جب آپریشن شروع کیا جاتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے،آپریشن ضرب عضب کے آغاز میں بھی یہی مواقف اپنایا گیا۔لیکن بعدازں یہ واضح ہوگیا کہ ’’اچھے اور برے طالبان ‘‘میں فرق کیا جاتا ہے۔موجود حکومت کے اہم نمائندے سرتاج عزیز نے نومبر میں کہا تھا کہ ہمیں طالبان میں اچھے اور برے کا فرق کرنا ہوگا۔ریاست آج بھی بلوچستان ،سندھ ، پختونخوا اور پنجاب میں انڈیااورشیعہ مخالف گرپوں کی پشت پناہی کررہی ہے۔ یوں دہشت گردوں کی نئی کھیپ کوریاست جنم دے رہی ہے ۔ اس سے واضح ہے کہ حکمران طبقہ جب چاہے مذاکرات کرائے اور جب چاہیے جنگ یہ ہروقت یہی چاہتا ہے کہ عوام اس کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس کو اپنی جنگ سمجھیں،جو حقیقت میں سامراج کے مفاد کی جنگ ہے۔
اس جنگ کے نتیجے میں 50000سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں اور پچاس لاکھ کے قریب بے گھر ہیں ۔لیکن یہ جنگ ختم نہیں ہورہی،یہ آپریشن طالبان میں خاتمے کی بجائے ان کی دہشت گردی کی شدت میں اضافہکا سبب بن رہا ہے۔ہر آپریشن کوفیصلہ کن اور حتمی بناکر پیش کیا جاتا ہے،جس سے امن اور ترقی ہوگی،لیکن یہ پہلے سے زیادہ بربادی اور تباہی لے کر آتا ہے ۔ہر آپریشن میں عام لوگ ہی مارے جاتے ہیں ۔
حکمران طبقہ اور ریاست اس جنگ کو ہماری جنگ قرار دیا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ سامراج کے مفادات اور قبضے کی جنگ ہے،جس میں ناکامی کی وجہ سے یہ اس کو پھیلا رہا ہے ۔آپریشن کے دائرے کار کو پورے ملک پھیلایا اور اس میں تیزی لائی جارہی ہے ۔اس کے ساتھ افغان مہاجرین کے خلاف تعصب میں اضافہ اور ان کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا جارہاہے،جبکہ پنجاب اور دیگر علاقوں میں سرچ آپریشن کے نام پر عام پختونوں کو ذلیل وخوار کیا جارہا ہے۔یہ نسل پرستی کی بدترین شکل ہے اور اس کا مقصد محنت کش طبقہ کو تقسیم کرنا ہے۔
ہم طالبان کی دہشت گردی کی شدید مخالفت اوربچوں کے والدین کے ساتھ اظہایکجہتی کرتے ہیں۔ لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ آپریشن کا جاری رہنا اس بربریت کا کوئی حل ہے،بلکہ یہ عوام کے لیے مزید تباہی اور بربادی لے کرآئے گا۔اس جنگ کوفی الفور بندکیاجائے یہی مزید بچوں کو نشانہ بنانے سے روکنے کا ایک طریقہ ہے آپریشن نے دہشت گردی کو ختم کرنے کی بجائے اس کو مزید پھلایاہے۔
حکمران طبقہ کے شدید پرپگنڈے میں ہر ایک آپریشن کا حامی بن گیا ہے۔یہاں سوشلسٹوں کے لیے ضروری ہے کہ وہسامراجی جنگ کی حقیقت اشکار کرئیں کہ یہ جنگ جہاں
عوام کے لیے مزید تباہی اور بربادی لے کرآئے،وہاں اس کا مقصدریاست کے تسلط کو مضبوط بنانا ہے ۔یوں بربریت کا ایک لامتناہی جاری رہے گا۔لحاظ ہمیں جنگ ،نسل پرستی کی مخالفت اور دہشت گردی ایکٹ ودملٹری کورٹس جو انسانی حقوق کے خلاف ہیں اوران کیخلاف سیاسی جدوجہد منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔ طالبان مخالف جدوجہد جنگ اور سرمایہ داری کی مخالفت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
Report from the Revolutionary Workers Organization (RCIT Section in Pakistan) about protests against the killing of two brick kiln workers (husband and wife) who were killed by a reactionary mob for alleged blasphemy. Before they were locked inside a factory by the capitalist to prevent them from fleeing their debts.
کوٹ رادھا کشن میں مسیح محنت کش شوہر اور بیوی کو جلادیا گیا،شمع اور شہزاد بارہ سال سے محمد یوسف گجرکے بھٹہ پرمزدوری کرتے تھے اور مالک کے بقول انہوں نے کام کرنے کے لیے پیشگی 250000لے رکھے تھے۔جب شوہر اور بیوی نے مالک سے اس حوالے سے حساب مانگا تو اس نے حساب کی بجائے،ان دونوں پر شدید تشدد کیا اور ان کو بھٹہ پر ہی ایک کمرے میں بند کردیا۔یہ بھٹہ پر ایک عام سی بات ہے مالکان اس طرح پیشگی دے کر محنت کشوں کو غلام بنالیتے ہیں اور ان کی ساری زندگی ان کی غلامی میں گزر جاتی ہے،بلکہ اکثر تو ان کو دوسرے بھٹہ مالکان کو فروخت بھی کردیا جاتا ہے،ویسے بھی یہ قرض نسل در نسل بھی منتقل ہوجاتا ہے۔شمع جو پانچ ماہ سے حاملہ تھی نے بند کمرے سے اپنے باپ کو فون کیا کہ مالکان اس پر اس کے شوہر پر بے تحاشہ تشدد کررہے ہیں اور یہ ان کو مار دیں گئیں۔یہ اس کا آخری فون تھا۔
ایک ردی خریدنے والے نے مقامی مولوی کو بتایا کہ اس نے ان کے گھر سے ردی خریدی تھی جس میں سے مقدس اوراق جلے ہوئے ملے ہیں۔یہ ایک من گھرٹ کہانی تھی جس دیہاتیوں کو تشدد پر اکسانے کے لیے پھیلایا گیا۔
اس کے بعدایک آگ تھی جو ان مسیح بھٹہ مزدوروں کو جلاگئی،جس مین شوہر اور بیوی کے علاوہ ماں کے پیٹ میں پانچ ماہ کا بچہ بھی تھا۔اس واقعہ نے پورے ملک میں نفرت اور غصہ کی لہر کو پھیلادیا اور ہر شہر میں اس کے خلاف مظاہر ے اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔خاص طور پر ٹریڈ یونینز،لیفٹ،اور سوشل موومنٹس اس میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
بھٹہ مزدورں کی مختلف تنظیموں نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور اس کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا،جبکہ پاکستان بھٹہ مزدور یونین نے تین روز ہڑتال کا اعلان کیا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم تمام مسلمان اوع مسیح محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف تین روز تک کام پر نہ جائیں انہوں نے کہا یہ مزدور تحریک کے لیے ایک افسوس ناک لمحہ ہے۔ہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس سوگ اور پرامن ہڑتال کے خلاف کوئی اقدام نہ اٹھائیں۔
پاکستان میں اس وقت مذہبی تشدد عروج پر ہے اور حکمران طبقہ کے تمام تر ٹسوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ نسل پرستی اور مذہبی تقسیم میںاضافہ چاہتے ہیں،تاکہ ان کے نظام کے خلاف جدوجہد کی بجائے محنت کش آپس میں تقسیم رہیں۔پھر چاہیے یہ اہل تشیع کا قتل ہو،یا ہندوں لڑکیوں کی جبری مذہب کی تبدیلی،یہ سب اس نظام کا جبر ہے جس کو مسلط کرکے حکمران طبقہ اپنے نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
ہم یہ سمجھتے کہ ریاست کو مذہب سے علیحدہ ہونا چاہیے اور یہ مزدور تحریک کی جدوجہد کا اہم جزو ہے۔
پاکستان کسان اتحاد نے پنجاب بھرمیں یکم اکتوبرکو فصلوںکے کم ریٹوں کے خلافدھرنوں کی کال دی ۔پنجاب کے تقریبا
تمام شہروں کسان اتحاد کے زیراہتمامبڑے مظاہرے ہوئے ان دھرنوںمیں ہزاروں کی تعداد میں کسانوں نے شرکت کی،مختلف شہروں کے مزدوروں نے کسانوں کے مطالبات کی بھرمکمل کا اعلان کیا،کسانرہنماو
¿ں کامطا لبہ تھا کہ کپاس کاریٹ چار ہزار، گنا تین سو روپے اوردھان کاریٹ پچیس سو روپے کیا جائے۔ بجلی کی قیمتیں کم کی جائیں، لوڈ شیڈنگکا خاتمہ کیا جائے اور حکمران آئی ایم ایف کی کسان ومزدور اور غریب دشمنپالیسیوں کو فوراً بند کریں۔ مرکزی راہنماوں نے تقریریں کرتے ہوئے کہا کہحکومت نے عالمی اجارہ داریوں اور اپنے سرمایہ داروں کو ٹیکسوں اور کسٹمزڈیوٹی کی مد میں 479 ارب روپے کی چھوٹ دے رکھی ہے، ٹیکسوں میں چھوٹ ہو یاسرکاری شعبے کے بینکوں سے لئے گئے قرضوں کی معافی، سرمایہ کاری کے لئے بہترحالات پیدا کرنے کے نام پر ہر سال اربوں روپے سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنلکمپنیوںکے مفاد میںخرچ کئے جاتے ہیں۔ جبکہ عوام کی بنیادی ضروریات زندگیپر ہونے والے اخراجات میں اضافہ تو دور کی بات، موجودہ حکومت رہی سہیسہولیات بھی حملے کررہی ہے ۔ اگر حکمران نے عوام دشمن رویہ ترک نہ کیا تواحتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا اور اسے پنجاب کے ہر قصبے اور دیہات میںپھیلایا جائے گا اور کسانوں اور غریب عوام کو ان کے حقوق کی جدوجہد میںاکھٹا کیا جائے گا اور یہی عوام کی اصل جدوجہد ہو گی جو انقلاب اور نظام کوتبدیل کرنے گی اور کسانوں،مزدورں اور غریب عوام کوجینے کا حق دے گی۔ہم نےپہلے بھی جدوجہد کی ہے اور ہماری جدوجہد حقیقی تبدیلی تک جاری رہے گی اوریہ
جدوجہد تمام تر تشدد اور جبر کے باوجود جاری رہے گی اگر حکمرانوں نے ہمارےمطالبات تسلیم نہ کیے تو ہم پہیہ جام کردیں گئیں۔